Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پناہ کی تلاش میں برطانیہ پہنچنے والے سینکڑوں افراد زیر حراست

زیر حراست افراد میں جنگ زدہ ممالک میں سمگلنگ اور تشدد کا نشانہ بننے والے افراد شامل ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)
چھوٹی کشتیوں میں برطانوی ساحل پر پہنچنے والے سینکڑوں افراد کو فوری طور پر گرفتار کر کے امیگریشن کے حراستی مراکز میں منتقل کر دیا گیا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق یہ خدشہ پیدا ہو گیا ہے کہ وزارت داخلہ نے سیاسی پناہ کے دعوؤں کا مکمل جائزہ لیے بغیر تارکین وطن کو ملک بدر کرنے کے لیے ایک نئی پالیسی کا آغاز کر دیا ہے۔
زیر حراست افراد میں جنگ زدہ ممالک میں سمگلنگ اور تشدد کا نشانہ بننے والے افراد شامل ہیں جہاں برطانیہ لڑا ہے، جیسے افغانستان اور عراق۔
عام طور پر ایسے پس منظر والے تارکین وطن کو جب تک ان کی پناہ کے کیسز چلتے ہیں، رہائش فراہم کی جاتی ہے لیکن اب انہیں فوری طور پر گرفتاری اور ممکنہ طور ملک بدری کا سامنا ہے۔
وکلا نے وزارت داخلہ پر یہ الزام عائد کیا ہے کہ ’انھوں نے بچوں کی عمر کی غلط جانچ کرتے ہوئے انہیں براہ راست امیگریشن کے حراستی مراکز میں بھیج دیا ہے۔‘
اس حوالے سے مہم چلانے والے افراد کا کہنا ہے کہ متعدد پناہ گزینوں کو وکلا تک رسائی فراہم نہیں کی گئی، یہ اقدام ’مہذب اور ہمدرد قوم کا کام نہیں ہے۔‘
ڈنکن لیوس سالسٹرز کے پبلک لا اینڈ امیگریشن کے ڈائریکٹر توفیق حسین نے نئے قومیت اور سرحدوں کے بل کو ’طاقت کا گھمبیر استعمال‘ قرار دیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’انہوں نے مؤثر طریقے سے پناہ کے نظام کو نظرانداز کرتے ہوئے اور مضبوط دعوؤں والے افراد سے یہ کہنا شروع کیا ہے کہ ان کا دعویٰ کمزور ہے، ان کو اپیل نہیں مل سکتی ہے اور وہ انہیں جلدی سے ہٹانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔‘
توفیق حسین کا مزید کہنا تھا کہ ’مکمل نکتہ نظر ان مقامات سے آنے والے لوگوں کو انکار کرنا ہے جہاں وزارت داخلہ جانتا ہے کہ افراد کو نقصان اور ظلم و ستم کا خوف ہے۔‘
خیال رہے کہ یہ تازہ ترین پیش رفت گذشتہ سال وزارت داخلہ کی پالیسی میں ردوبدل کے بعد ہوئی ہے، جب اس نے برطانیہ آنے والوں کے لیے سیاسی پناہ کے انٹرویو کو خفیہ طور پر مختصر کیا تھا۔
اس تبدیلی کا مطلب یہ ہے کہ سابقہ پالیسیوں کے مقابلے میں تشدد اور سمگلنگ کے شکار افراد کو ملک بدری کا زیادہ تیزی سے سامنا کرنا پڑے گا۔

شیئر: