Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’مہمان نواز شہر‘ جدہ جس کا زائرین سے ’صدیوں پرانا‘ رشتہ آج بھی قائم

ماضی میں 70 فیصد حاجی سمندر کے راستے جدہ پہنچا کرتے تھے (فوٹو: اے ایف پی)
صدیوں سے لاکھوں مسلمان زندگی میں ایک بار حج کے خواہشمند رہتے ہیں اور اس کے لیے مکہ کا سفر کرتے ہیں۔ گزرے وقتوں میں یہ سفر خاصا مشکل ہوتا تھا مگر جیسے ہی تھکے زائرین جدہ پہنچتے انہیں سکون کا احساس ہوتا جو اس شہر کے رہائشیوں کی جانب سے ان کی مہمان نوازی سے ہوتا، جس کے لیے وہ مشہور ہیں۔
عرب نیوز کے مطابق بحر احمر کے ساحل پر واقع بندرگاہ شہر 1300 سے زیادہ سالوں سے حج اور عمرہ سے منسلک چلی آ رہی ہے۔
پیغمبر اسلام کے ساتھ خلیفہ عثمان بن عفان نے 674 میں اس شہر کو مکہ اور مدینہ جانے والے زائرین کے لیے شہر کو گیٹ وے کا درجہ دیا تھا۔
تب سے شروع ہونے والا یہ سلسلہ آج بھی سعودی مملکت کے زیرانتظام  جاری ہے اور مکہ جانے والے حاجیوں کے سفر، رہائش اور دوسری سہولتوں کے لیے انتھک کوششیں ہوتی رہتی ہیں جو جدہ کے مشرق میں 40 اور مدینہ کے شمال میں 220 میلے فاصلے پر واقع ہے۔
دو مقدس شہروں کے اس گیٹ وے نے دنیا کے کونے کونے سے آنے والے مسلمانوں کی کئی نسلوں کو قیام اور کھانے اور سہولت مہیا کی ہے لیکن شہر کی خصوصیات صرف انہی تک محدود نہیں بلکہ یہاں حجاج کا روایتی طور پر مہمان نوازی، یکجہتی اور دوستی کے ساتھ استقبال ہوتا رہا ہے، جو کہ جدہ کے رہائشیوں کی ایک قابل فخر روایت ہے جو آج تک جاری ہے۔
مکہ میں رہنے والے ان کو اکثر ’مطاوفین‘ کہتے ہیں جو’طواف‘ سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے دورہ یا زیارت،
اسی طرح جدہ کے رہائشی عموماً ’وکالہ‘ کے طور پر جانے جاتے ہیں جو سمندر کے راستے آنے والے حاجیوں کو مدد اور رہنمائی دیا کرتے تھے۔
پرانے زمانے میں بڑے بڑے جہاز زائرین کو بحیرہ احمر کے ساحل پر پہنچتے تھے جن کو مقامی لوگ چھوٹی کشتیوں میں لے جاتے اور ان کے قیام کا بندوبست کرتے۔

مکہ میں رہنے والے لوگ زائرین کو اکثر ’مطاوفین‘ کہتے ہیں (فوٹو: عرب نیوز)

جدہ کے پرانے رہائشی اور تاریخ دان احمد دبدیب کہتے ہیں کہ شہر اور زائرین کے درمیان اس رشتے نے نہ صرف اس کے شہری جغرافیے کو شکل دی ہے بلکہ یہاں کے طریقہ زندگی پر بھی اس کا اثر ہے۔
 انہوں نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’خشکی کے راستے آنے والے حاجیوں کی تعداد بہت کم ہوتی تھی جبکہ بڑے بحری جہازوں سے آنے والوں کی تعداد زیادہ ہوتی تھی جب کہ جدہ میں ہوٹل نہیں تھے۔‘
ان کے مطابق ’شہر کے لوگ زائرین کو اپنے گھروں میں ٹھہراتے اور ان کے خاندانوں کے حصے کی طرح ہوتے اور واپس جانے کے بعد وہ خطوط لکھتے کیونکہ انہوں نے ان کی مہمان نوازی کو اپنے گھر کی طرح محسوس کیا ہوتا تھا۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’اس وقت مکہ جانے کے لیے اونٹ بھی استعمال ہوتے تھے اور ایک روز میں مکہ پہنچتے تھے۔‘

اسی طرح جدہ کے رہائشی سمندر کے راستے آنے والے حاجیوں کو مدد اور رہنمائی دیا کرتے تھے (فوٹو: گیٹی امیجز)

مقامی معیشت میں بہتری کا باعث بننے کے بعد حج نے جدہ کے فن تعمیر کو بھی شکل دی۔ تاریخ دانوں کا ماننا ہے کہ امیر خاندان کئی زائرین کو اپنے گھروں میں ٹھہراتے تھے جس کی وجہ سے گھروں میں اوپر کی منزلیں بنائی گئیں اور زیادہ تعداد میں کمرے بنائے جاتے رہے جن میں بالکونیاں بھی ہوتیں۔
ان اونچے گھروں کے مالکان زائرین کے آنے سے قبل ہی ان کے قیام کی تیاری کر لیتے تھے۔ مہمانوں کو عام طور پر گراؤڈ فلور دیا جاتا جہاں انہیں چٹائیاں اور تکیے فراہم کیے جاتے جبکہ مالکان زیادہ تر اوپر رہتے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حاجیوں کی تعداد بڑھتی رہی اور یہ مشکل ہو گیا کہ اتنے لوگوں کو شہر  کے لوگ گھروں میں ٹھہرائیں اس لیے سعودی حکام نے محسوس کیا کہ ان کو نئی سہولتوں کا بندوبست کرنا پڑے گا۔

پہلے خشکی کے راستے آنے والے حاجیوں کی تعداد بہت کم ہوتی تھی (فوٹو: گیٹی امیجز)

1950 میں مملکت کے بانی شاہ عبد العزیز نے احکامات جاری کیے کہ جدہ کی بندرگاہ کے قریب ’حجاج کا شہر‘ تعمیر کیا جائے گا جہاں تقریباً 70 فیصد حاجی پہنچا کرتے تھے۔ 1971 تک شہر کے اندر اس شہر میں 27 عمارتیں تعمیر ہوئیں جن میں کلیکنکس، دکانیں، مساجد اور دوسرے سہولت فراہم کرنے والے مقامات شامل تھے۔
اسی طرح بعدازاں بہت سی دیگر سہولتوں کا اہتمام کیا گیا جن میں ایک شہر کے مشرق میں واقع ہے جہاں 2000 حاجی رہائش رکھ سکتے تھے جبکہ دوسرا مقام ایئرپورٹ کے قریب تھا جہاں 1980 کے نصف عشرے تک 3000 حاجیوں کی گنجائش تھی۔
وقت تبدیل ہو گیا ہے اور اگرچہ اب جدہ کے خاندان اپنے بزرگوں کی طرح حاجیوں کو اپنے گھروں میں نہیں ٹھہراتے تاہم وہ اب بھی ان کے لیے ویسی ہی گرم جوشی، محبت اور مہمان نوازی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں جو صدیوں سے چلا آ رہا تھا۔

شیئر: