Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وزیراعظم پورٹل پر شہریوں کی پولیس کے خلاف شکایات کیا ہیں؟

پنجاب پولیس کے مطابق شہریوں کی جانب سے مختلف نوعیت کی شکایات درج ہوتی ہیں۔ (فوٹو: سٹیزن پورٹل)
پاکستان میں شہریوں کی شکایات کے ازالے کے لیے بنائے گئے پاکستان سٹیزن پورٹل میں پولیس کے خلاف بڑی تعداد میں شکایات درج ہوتی ہیں لیکن دیگر صوبوں کی نسبت پنجاب میں ان کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔
پنجاب کے اے آئی جی شکایات سیل ڈاکٹر رضوان احمد خان کے مطابق روزانہ کی بنیاد پر پنجاب میں چار سو سے زائد ایسی شکایات ہیں جو پولیس کے خلاف ہوتی ہیں۔  
حال ہی میں آئی جی آفس نے پنجاب کے تمام متعلقہ افسران کو ایک مراسلہ لکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’شہریوں کو پولیس کے حوالے سے جو شکایات ہیں وہ وزیراعظم پورٹل کے ذریعے آتی ہیں۔ ان شکایات کے ازالے پر شہریوں کے اطمینان کی شرح 50 فیصد ہے۔ اس شرح کو بڑھانے کے لیے پولیس افسران اور محنت سے کام کریں۔‘
اے آئی جی ڈاکٹر رضوان سمجھتے ہیں کہ شہریوں کے مطمئن ہونے کی شرح میں پہلے سے بہتری آئی ہے ’میں آپ کو وثوق سے کہتا ہوں کہ پچھلے مہینے مطمئن ہونے کی شرح 56 فیصد ہوئی ہے جو کہ جب سے یہ پورٹل کام کر رہا ہے اس وقت سے سب سے زیادہ ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ اس بات کو سمجھنے کے لیے یہ بات دیکھنا ضروری ہے کہ شکایات کی نوعیت کس طرح کی ہے۔
’عوام کو سب سے زیادہ شکایتیں ایف آئی آر کے اندراج میں تاخیر سے متعلق ہوتی ہیں۔ جن کی تعداد 70 فیصد ہوتی ہے۔ اسی طرح 18 سے 20 فیصد شکایات جو ہیں وہ پولیس جن مقدمات کی تفتیش کر رہی ہوتی ہے ان سے متعلق ہیں۔ یعنی لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کے مقدمے کی تفتیش صحیح نہیں ہو رہی یا پولیس افسر ملزم پارٹی کی حمایت کرتا ہے وغیرہ وغیرہ اور پانچ فیصد ایسی شکایات ہوتی ہیں جن میں براہ راست پولیس پر الزام ہوتا ہے کہ وہ خود شہریوں سے زیادتی میں ملوث ہے۔‘
پولیس کی زیادتیوں سے متعلق بات کرتے ہوئے انہوں نے اردو نیوز کو دو حالیہ شکایات سے متعلق بتایا ’میں آپ کو دو دن پہلے کے واقعات بتاتا ہوں وزیراعظم پورٹل پر آنے والی دو شکایات میں سے ایک حافظ آباد پولیس سے متعلق تھی۔ شکایات کے درست ثابت ہونے پر چار پولیس اہلکاروں پر مقدمہ درج کیا گیا۔ اسی طرح تھانہ واہنڈو ڈویژن گوجرانوالہ میں ایک شکایت درست ثابت ہونے پر سب انسپکٹر سمیت تمام اہلکاروں کو نہ صرف معطل کیا گیا بلکہ ایف آئی آر بھی درج کی گئی۔ تو یہ ایسی مثالیں ہیں جس سے لوگوں کے اعتماد میں مزید بہتری آئے گی اور شہریوں کی اپنی شکایات سے متعلق پولیس سے مطمئن ہونے کی شرح اور اوپر آئے گی۔‘ 

اے آئی جی ڈاکٹر رضوان کے مطابق 18 سے 20 فیصد شکایات مقدمات کی تفتیش سے متعلق ہوتی ہیں۔ (فوٹو: پکپیڈیا)

اس حوالے سے پنجاب کی لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر مقصود بٹر کا کہنا ہے کہ لوگوں کو پولیس سے اصل شکایات تفتیش کے طریقوں سے بھی ہیں۔
وہ سمجھتے ہیں کہ پولیس کے خلاف شکایت کرنے بعد شہری اپنے آپ کو توانا سمجھنے کی بجائے اور کمزور محسوس کرتے ہیں۔
’جب لوگوں کے ساتھ مقدموں کی تفتیش میں ناانصافی ہو رہی ہوتی ہے تو وہ شکایات تو لگا دیتے ہیں لیکن وہ اندر سے ڈر بھی رہے ہوتے ہیں کہ وہی پولیس افسر یا اہلکار اپنے آپ کو بچانے کے لیے اس کا بدترین مخالف نہ بن جائے۔ اس لیے اب لوگوں میں وہ اعتماد نہیں آ رہا جس سے ان کے مطمئن ہونے کی شرح میں بہتری آئے۔ ابھی سوشل میڈیا اور دوسرے میڈیا کی وجہ سے لوگوں کو ایک سہارا ملا ہوا ہے لیکن اس میں بھی ہر کیس کو لائم لائٹ میں لانا مشکل ہے۔‘ 
لوگ پولیس سے کس حد تک ڈرتے ہیں اس پر ڈاکٹر رضوان کا کہنا ہے کہ ’ایسا نہیں ہے کہ لوگ پولیس کے خلاف شکایت لگا کر کسی مصیبت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ شکایات دہندہ کو اس بات کی بھی آزادی حاصل ہے کہ وہ اپنی شناخت ظاہر کیے بغیر بھی شکایت درج کروا سکتا ہے۔ تین سے پانچ فیصد شکایات ایسی ہیں جن میں درخواست دینے والا اپنا نام خفیہ رکھتے ہیں لیکن کی فراہم کی ہوئی معلومات کی بھرپور جانچ کی جاتی ہے۔‘

شیئر: