Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ٹوکیو اولمپکس: پاکستان میڈلز کی دوڑ میں پیچھے کیوں؟

ٹوکیو اولمپیکس میں پاکستانی ویٹ لیفٹر طلحہ حبیب کی عمدہ کارکردگی نے دنیا بھر کو متاثر کیا (فوٹو اے ایف پی)
ٹوکیو میں جاری اولمپکس گیمز میں 22 رکنی پاکستانی دستہ شرکت کر رہا ہے اور حیرت انگیز طور پر پاکستانی دستے میں 10 کھلاڑیوں کے ساتھ سپورٹ سٹاف کے 12 اہلکار بھی موجود ہے۔  
پاکستان سپورٹس بورڈ (پی ایس بی) سے حاصل کردہ تفصیلات کے مطابق ٹوکیو اولمپکس میں 10 کھلاڑیوں کے ساتھ 12 آفیشلز دستے میں شامل ہیں۔ 
پی ایس بی حکام کے مطابق ’پاکستانی دستے کے 13 ارکان سپورٹس بورڈ کی جانب سے نامزد کردہ ہیں، جبکہ دیگر نو آفیشلز پاکستان اولمپکس ایسوی ایشن سپانسر کر رہی ہے۔
حکام نے بتایا کہ ’سپورٹس بورڈ صرف کھلاڑیوں کی ٹریننگ اور لاجسٹکس کے انتظامی معاملات کو دیکھتا ہے۔‘  
ٹوکیو اولمپکس میں پاکستانی ویٹ لیفٹر طلحہ حبیب کی عمدہ کارکردگی نے جہاں دنیا بھر کو متاثر کیا وہیں شائقین کی جانب سےاولمپکس مقابلوں میں محدود کھلاڑیوں کی شرکت اور حکام کی غیر سنجیدگی پر بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ 

 پاکستانی کھلاڑیوں کی میڈلز سے دور رہنے کی وجوہات کیا ہیں؟  

پاکستان نے اولمپکس گیمز میں گزشتہ تین دہائیوں سے کوئی میڈل اپنے نام نہیں کیا۔ پاکستان نے اولمپکس میں سب سے زیاد میڈلز ہاکی میں حاصل کیے ہیں جن میں تین گولڈ میڈلز، تین چاندی اور دو کانسی کے تمغے شامل ہیں، لیکن پاکستان ہاکی مسلسل دو مرتبہ اولمپکس گیمز تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔  
دوسری جانب 22 کروڑ سے زائد آبادی والے ملک سے صرف 10 ایتھلیٹس کی شرکت پر بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔

مرزا اقبال بیگ کے خیال میں ’اپنے عہدوں کو بچانے کے لیے فیڈریشنز کو نوازا جاتا ہے۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)

سینئیر صحافی اور سپورٹس تجزیہ نگار مرزا اقبال بیگ اولمپکس گیمز میں پاکستانی کھلاڑیوں کی رسائی نہ ہونے کی وجہ حکومت کی جانب سے عدم توجہی کو قرار دیتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’18ویں ترمیم کے بعد وفاق کی سطح پر کھیلوں کی وزارت ہی ختم کر دی گئی ہے۔ چاروں صوبوں میں کھیلوں کے وزیر تو ہیں، لیکن وفاقی سطح پر ایک وزارت بین الصوبائی رابطہ بنایا تو ہے مگر کھیلوں کے معاملات صوبوں نے دیکھنے ہیں۔‘  
انہوں نے کہا کہ حکومت کی غیر سنجیدگی ہے کہ پاکستان سپورٹس بورڈ کئی سالوں سے مستقل سربراہ سے ہی محروم تھا۔ 17 سال سے  جنرل (ر) عارف حسن پاکستان اولمپکس ایسوسی ایشن کے صدر ہیں، لیکن ان سے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔‘
مرزا اقبال بیگ کے خیال میں ’اپنے عہدوں کو بچانے کے لیے فیڈریشنز کو نوازا جاتا ہے اور ٹوکیو اولمپکس کے دوران بھی سپورٹس فیڈریشنز کے عہدیداروں کو بطور آفیشل اور کوچ دستے میں شامل کیا گیا ہے۔‘  
انہوں نے مزید کہا کہ ’پاکستان سپورٹس بورڈ اوراولمپکس ایسوی ایشن الزامات ایک دوسرے پر عائد کر رہے ہیں۔ ان دونوں اداروں کا کام ہے کہ یہ مل جل کر کام کریں، لیکن دونوں کی سمت ہی مختلف ہے اور ہم آہنگی کا فقدان ہے۔‘  

22 کروڑ سے زائد آبادی والے ملک سے صرف 10 ایتھلیٹس کی شرکت پر بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

مرزا اقبال بیگ کے خیال میں حکومت کو کھیلوں کے مختص فنڈز میں اضافے کرنے کی ضرورت کے ساتھ ساتھ چیک اینڈ بیلنس رکھنے کی ضرورت ہے۔’اکثر انٹرنیشنل مقابلوں میں فیڈریشنز کا مقصد ملک کے لیے میڈیلز لے کر آنا نہیں بلکہ ’جوائے ٹرپس‘ ہیں۔‘  

پاکستان اولمپکس ایسوی ایشن کا موقف کیا ہے؟ 

اردو نیوز نے پاکستان اولمپکس ایسوسی ایشن کے صدر لیفٹینٹ جنرل (ر) عارف حسن سے ان کا موقف جاننے کے لیے متعدد بار رابطہ کیا، لیکن انہوں نے بھیجے گئے سوالنامے پر کوئی موقف نہیں دیا۔
تاہم پاکستان اولمپکس ایسوسی ایشن کی جانب سے منگل کو جاری ہونے والی پریس ریلیز میں کہا گیا کہ ’ملک میں کھیلوں کے وسائل اور کھلاڑیوں کی فنڈنگ سمیت تمام معاملات کی ذمہ داری پاکستان سپورٹس بورڈ کی ہے، جبکہ پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی کی نمائندہ تنظیم ہے جس کا کوئی عہدیدار حکومت سے تنخواہ نہیں لے رہا۔‘
پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن نے کہا ہے کہ ’پاکستان سپورٹس بورڈ نے اولمپکس سے قبل 44 کروڑ روپے بغیر خرچ کیے حکومت کو واپس کر دیے۔ اگر یہ ایتھلیٹس پر خرچ کیے ہوتے تو آج طلحہ طالب اور گلفام جوزف پاکستان کو پوڈیم پر لا سکتے تھے۔‘
 پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن نے مزید کہا کہ ’دستے کے سفر اور کوویڈ کے اخراجات پی او اے نے برداشت کیے، حالانکہ یہ پی ایس بی کی ذمہ داری تھی۔‘

شیئر: