Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی آرٹسٹ جو بانس کے کاغذ سے آرٹ تخلیق کرتی ہیں

جمانہ تلیتی تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہیں (فوٹو: عرب نیوز)
سعودی عرب کی آرٹسٹ جمانہ تلیتی کو اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے لیے ایک نیا ذریعہ مل گیا ہے اور وہ ذریعہ ہے بانس سے بنے کاغذ سے تخلیقی عمل کا اظہار کرنا۔
ایک انتہائی محنت طلب عمل سے گزر کر وہ اس میٹریل کو مضبوط چیزوں میں تبدیل کر دیتی ہیں، جن میں ٹوکریوں سے لے کر چیزیں سٹور کرنے والے ڈبے یا چھوٹی سطح کا فرنیچر یا پھر مجسمے۔
انھوں نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’کسی دوسرے آرٹ کی طرح اس آرٹ میں بھی خاص تکنیک، فہم اور فنکارانہ خیال کی ضرورت ہوتی ہے جس کے بعد آپ کچھ تخلیق کر سکتے۔ دوسرے فنون سے یہ اس لحاظ سے مختلف ہے کہ اس آرٹ سے بنی ہوئی اشیا بہت مضبوط ہوتی ہیں جو روزانہ آپ کے کام بھی آتی ہیں اور انھیں سجاوٹ کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔

اس آرٹ سے بنی ہوئی اشیا بہت مضبوط ہوتی ہیں (فوٹو: عرب نیوز)

جمانہ تلیتی اصل میں تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہیں اور انھوں نے 19 سال سکولوں میں کام کیا ہے۔ بعد میں وہ پرنسپل بھی بنیں۔
جب 2020 میں کورونا کی وبا پھیلی تو انھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ قدرتی میٹریل کے ذریعے، جس میں لکڑی، بانس اور ڈنڈیاں شامل ہیں، اپنے طویل عرصے پر محیط شوق کی چھان بین کریں گی۔ اس کے بعد انھوں نے آن لائن، بانس کے ذریعے بنے کاغذ سے کچھ بنانے کا سوچا اور یوں ان کا سفر شروع ہوگیا۔
اس چیز نے حیرت انگیز طور پر مجھے اپنی طرف متوجہ کیا۔ مجھے یوں لگا جیسے میرے جذبے کو اظہار کی صورت مل گئی ہے کیونکہ اس نے میرے دل میں گھر کر لیا تھا۔
جمانہ تلیتی کہتی ہیں کہ ’اس طریقے میں کاغذ کو خاص سوئی استعمال کر کے مضبوطی کے ساتھ ڈنڈیوں پر لپیٹا جاتا ہے پھر کسی خاص شکل میں اس کی بُنائی کی جاتی ہے۔‘

یہ آرٹ ماحولیاتی طور پر نقصان دہ نہیں، ان اشیا کو ری سائیکل کر سکتے ہیں (فوٹو: عرب نیوز)

پہلا کام یہ ہوتا ہے کہ کس طرح کا کاغذ استعمال کیا جائے، اس کا سائز کیا ہو اور اسے کیسے کاٹا جائے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’آپ ایک بار اس آرٹ سے کام کر کے دیکھیں۔ آپ ان سے جو چیزیں بنائیں گے ان کی مضبوطی آپ کو حیران کر دے گی۔ آپ اس کاغذ سے بنی ہوئی چیزوں کو صابن یا پانی کے ساتھ دھو بھی سکتے ہیں لیکن یہ خراب نہیں ہوں گی۔
ان کا کہنا ہے کہ ’یہ آرٹ ماحولیاتی طور پر بھی نقصان دہ نہیں کیونکہ ان اشیا کو آپ ری سائیکل کر سکتے ہیں۔‘
اس آرٹ پر مکمل دسترس حاصل کرنے کے لیے تیلیتی کو سخت قسم کے آن لائن کورس کرنے پڑے جن میں اس تکنیک کو سپیشل انداز میں سکھایا جاتا تھا۔

جدہ کے تاریخی ڈسٹرکٹ ’البلد الفن‘ میں اپنے کام کی نمائش کی تھی(فوٹو: عرب نیوز)

آج وہ سعودی فنکاروں میں پہلی ایسی فنکارہ ہیں جنھوں نے اس آرٹ میں خصوصیت حاصل کر لی ہے۔ اس کا سہرا وہ مملکت میں پھیلتے ہوئے ثقافتی لینڈ سکیپ کے سر باندھتی ہیں جس سے ایسے فنکاروں کو مدد ملتی ہے جو اپنے من پسند طریقے کے کام میں آسائش تلاش کر لیتے ہیں یا پھر اظہار کے نایاب طریقوں کی کھوج میں لگے رہتے ہیں۔
آرٹ کی یہ قسم دنیا میں نایاب ترین اقسام میں سے ایک ہے۔ اس میں ٹھیک اسی مہارت کی ضرورت ہوتی ہے جو کام کے عین مطابق ہو اور جس میں کاغذ کو لکڑی جیسے مواد میں تبدیل کرنے کی خاص سمجھ بوجھ ہو۔
جمانہ تلیتی نے حال ہی میں جدہ کے تاریخی ڈسٹرکٹ ’البلد الفن‘ میں اپنے کام کی ایک نمائش بھی کی تھی۔ انھیں حیرت ہوئی کہ اس کام نے دیکھنے والوں کے دلوں پر گہرا اثر چھوڑا۔
’میں نے دیکھا کہ لوگ اس کام پر حیران تھے اور اس فن کی تعریف کر رہے تھے۔ آرٹ کی یہ قِسم ان کے لیے کشش کا باعث بنی اور انھیں بُنائی کا طریقہ اور کام بھی خوب بھایا‘۔
ان کی خواہش ہے کہ وہ اپنے فن کو دوسروں تک منتقل کرنے کے لیے ورکشاپس کریں جس کے بعد وہ تصدیق شدہ تریبیت کار بن جائیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’ہنرمندوں کا شوق اور پورے سعودی عرب میں ثقافتی جدت کے احیا کے لیے ازسرِ نو کوششوں کی وجہ سے اس آرٹ کا مستقبل روشن ہے۔‘

 

شیئر: