Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی سکیورٹی بلیو بک کے مطابق ہے؟

پنجاب کے وزیراعلیٰ کی سکیورٹی پر اب تک پانچ افسران سے انکوائری ہو چکی ہے (فوٹو: حکومت پنجاب))
پنجاب کے وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار کی شادی کی ایک تقریب میں شرکت کے دوران قاتلانہ حملے میں ایک شخص کی ہلاکت کے بعد ان کی سکیورٹی سے متعلق ایک اعلیٰ سطحی انکوائری کمیشن نے معاملے کی چھان بین شروع کر دی ہے۔ 
اس کمیشن کی سربراہی ممبر وزیراعلیٰ معائنہ ٹیم کوکب ندیم وڑائچ کر رہے ہیں، جب کہ لاہور پولیس کے اعلیٰ افسران کمیشن کے روبرو پیش ہو کر اپنے بیان ریکارڈ کروا رہے ہیں۔
وزیراعلیٰ ہاؤس کے ایک اعلیٰ افسر کے مطابق ’ابھی تک پانچ افسران کے بیانات قلمبند کیے جا چکے ہیں۔ ان میں ایس ایس پی آپریشنز لاہور ندیم عباس، ایس پی آپریشن کینٹ ساید عزیز، ایس پی سکیورٹی، متعلقہ ڈی ایس پی اور ایس ایچ او ڈیفنس شامل ہیں۔‘
پنجاب پولیس کے ترجمان سہیل سکھیرا نے بھی اردو نیوز کو تصدیق کی ہے کہ ’ایک اعلیٰ سطحی انکوائری کمیشن اس معاملے کی چھان بین کر رہا ہے، ابھی ہم اس موضوع پر کوئی بات کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ انکوائری جاری ہے۔ مکمل رپورٹ کے بعد جو بھی فیصلہ ہوگا اس پر من و عن عمل ہو گا۔‘
دوسری طرف لاہور پولیس کے ترجمان نے اس موضوع پر بات کرنے سے مکمل طور پر معذرت کی ہے۔   
خیال رہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب گذشتہ ہفتے صوبے کے نئے بننے والے وزیر اسد کھوکھر کے بیٹے کی شادی کی تقریب میں شریک ہوئے تھے۔
تقریب سے وزیراعلیٰ کے نکلتے ہی وہاں چھپے دو حملہ آوروں نے صوبائی وزیر اور ان کے بھائی پر فائرنگ کر دی، جس کے نتیجے میں ان کے بھائی مبشر کھوکھر ہلاک ہوگئے۔ بعد ازاں پولیس نے دونوں حملہ آوروں کو گرفتار کر لیا۔ پولیس کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق یہ حملہ ایک پرانی دشمنی کا نتیجہ تھا۔
اس واقعے کے بعد سب سے زیادہ سوال وزیراعلیٰ پنجاب کی سکیورٹی پر کھڑے ہوئے، کیونکہ ابتدائی تفتیش میں یہ بات سامنے آٗئی ہے کہ ملزمان وزیراعلیٰ پنجاب کی موجودگی میں بھی وہیں موجود تھے۔

وزیراعلیٰ پنجاب کی موجودگی میں نامزد صوبائی وزیر اسد کھوکھر کے بیٹے کی شادی میں فائرنگ ہوئی تھی (فوٹو: فیس بک اسد کھوکھر)

پولیس کے اعلیٰ افسر نے اردو نیوز سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’وزیراعلیٰ کی سکیوٹی بلیو بک کے مطابق دی جاتی ہے اور سب سے پہلے وزیراعلیٰ کی اپنی سکیورٹی ٹیم نے کلیرنس دینی ہوتی ہے، اس کے بعد سپیشل برانچ آخر میں پولیس اس جگہ کا انتظام سنبھالتی ہے۔ وزیراعلیٰ کی موجودہ سکیورٹی پروٹوکول میں ان کی سکیورٹی ٹیم کو کم از کم 45 منٹ پہلے کلیرنس دینا ہوتی ہے۔ اس واقعے میں کئی جگہ پر ایس او پیز کی خلاف ورزی ہوئی۔ جس میں وزیراعلیٰ سکیورٹی ٹیم، سپیشل برانچ اور پولیس تینوں ہی ذمہ دار ہیں۔‘
سابق آئی جی پولیس طارق پرویز نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’اس بات میں تو کوئی دو رائے ہی نہیں ہیں کہ یہ ایک بدترین سکیورٹی لیپس تھا۔ دو حملہ آور وزیراعلیٰ کی موجودگی میں بھی وہاں موجود تھے، یہ ایک بہت بڑی بات ہے۔ اور میرے خیال میں یہ کسی ایک ادارے کی نہیں سب کی غفلت ہے۔ اس بات تک پہنچنا ہو گا کہ اتنی سنجیدہ غلطی کیسے ہوئی۔ اور اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ بلیو بک کے مطابق وزیراعلیٰ کو سکیورٹی مہیا نہیں کی گئی۔‘
ان سے جب سے یہ سوال کیا گیا کہ بلیو بک وزیراعلیٰ کی سکیورٹی سے متعلق کیا کہتی ہے تو ان کا کہنا تھا ’سب سے پہلے تو ان کی موومنٹ کو آخری لمحے تک خفیہ رکھا جاتا ہے۔ اس کے بعد ان کو سڑک پر باکس سکیورٹی دی جاتی ہے۔ جس میں ان کے گاڑی کے چاروں طرف سکیورٹی کی گاڑیاں ہوتی ہیں۔ پھر جہاں انہوں نے جانا ہوتا ہے وہاں کا کنٹرول سب سے پہلے سپیشل برانچ نے لینا ہوتا ہے جو کہ وزیراعلیٰ کی اپنی خصوصی سکیورٹی ٹیم کے ساتھ کام کرتی ہے۔ اور سویپ چیکنگ، ڈاگ سنفنگ سمیت پوری تسلی کر کے بیرونی سکیورٹی کا نظام پولیس کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ جبکہ سٹیج یا وہ جگہ جہاں وزیراعلیٰ نے بیٹھنا ہوتا ہے وہ مکمل طور پر سکیورٹی کے حصار میں ہوتی ہے۔‘

سکیورٹی کے معاملے پر پنجاب پولیس کے اعلیٰ افسران سے انکوائری ہوگی (فائل فوٹو: پنجاب پولیس)

طارق پرویز سمجھتے ہیں کہ بہت سے سوال پیدا ہوتے ہیں کہ ’کیا وزیراعلیٰ کی سکیورٹی جان بوجھ کر کم رکھی گئی یا رابطوں میں فقدان کا نتیجہ ہے دونوں صورتوں میں یہ ایک خراب صورت حال کی نشاندہی ہے۔ حتمی رپورٹ تو اب انکوائری کمیشن ہی دے گا لیکن یہ ذمہ داری کسی نہ کسی پر تو ضرور فکس ہو گی۔‘
یاد رہے کہ چند ماہ قبل وزیراعلیٰ پنجاب کی سکیورٹی میں بینڈ باجے کے لیے بھرتی کیے گئے اہلکاروں کو تعینات کیے جانے کا انکشاف ہوا تھا جس کے بعد ایک انکوائری میں سامنے آیا کہ نہ صرف بینڈ باجے بلکہ کچھ معذور اہلکاروں کو بھی وزیراعلیٰ کی سکیورٹی میں تعینات کیا گیا تھا۔

شیئر: