Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پائلٹ آفیسر راشد منہاس کی زندگی پر بننے والے ڈرامے کے ہیرو کو کیسے راضی کیا گیا؟

’اس روز میں اپنی ٹریننگ فلائٹ سے لیٹ فارغ ہوا۔ میس پہنچا تو تمام کیڈٹس کھانا کھا کر جا چکے تھے۔ ہمارے کچھ سینیئر کمیشنڈ آفیسرز ایک سیویلین کے ہمراہ ایک طرف بیٹھے باتوں میں مصروف تھے۔ میں نے خاموشی سے ایک کو نا سنبھالا اور کھانے میں مشغول  ہو گیا۔‘
’تھوڑی دیر بعد مجھے احساس ہوا کہ میرے پیچھے کوئی موجود ہے۔ گردن گھما کر دیکھا تو میرے سینیئر کوثر بٹ کھڑے تھے۔ کھانے کے بعد ہمیں آ کر ملو‘ وہ یہ کہہ کر چلتے بنے۔ ڈر کے مارے میرا برا حال ہوگیا کہ جانے کس غلطی کی سزا ملنے والی ہے۔
جیسے تیسے کھانا ختم کر کے ان کے پاس پہنچا تو سویلین کپڑوں میں ملبوس صاحب مجھے ایک طرف لے گئے اور بولے: ’ہم ڈرامہ بنا رہے ہیں اور آپ نے اداکاری کرنی ہے۔‘
’کہاں ایکٹنگ اور کہاں میں۔ ذرہ برابر بھی شوق تھا نہ کبھی خواہش کی تھی۔ میں نے صاف انکار کر دیا کہ یہ میرے بس کا کام نہیں۔‘
’کچھ بھی ہو یہ رول آپ ہی کریں گے‘ یہ کہتے ہوئے انہوں نے اپنے ہاتھ میں پکڑے کاغذ کے صفحات مجھے تھما دیے۔ اسے پڑھ لیجیے۔ شام میں آپ سے ملاقات ہو گئی۔‘
پاکستان ایئر فورس کے سابق افسر فاروق اقبال کی یاداشت کا یہ حصہ پائلٹ آفیسر راشد منہاس شہید پر بننے والے ڈرامے کے حوالے سے ہے۔
آج سے ٹھیک 50  برس قبل 20 اگست 1971 کو انہوں نے جواں مردی کے ساتھ ایئر فورس کے طیارے کو اغوا ہونے سے بچایا۔ اس غیر معمولی جرات پر انہیں نشان حیدر دیا گیا۔
1980 کی دہائی میں پاکستان ٹیلی ویژن نے نشان حیدر پانے والوں کی زندگی اور حالات پر ’نشان حیدر‘ کے نام سے چار ڈرامے پروڈیوس کیے۔
میجر سرور پر بننے والے ڈرامہ میں معروف اداکار سلیم ناصر نے ان کا کردار ادا کیا تھا ۔ ناصر شیرازی نے میجر عزیز بھٹی اور ضل سبحانی نے میجر طفیل پر بننے والے ڈراموں میں مرکزی کردار نبھایا۔ 
ایئر فورس کے آفیسرز اداکار بن گئے   
راشد منہاس  کی ذات پر بننے والا ڈرامہ اس حوالے سے منفرد اور غیر روایتی تھا کہ سوائے چند اداکاروں کے بقیہ تمام کردار ایئر فورس کے حاضر سروس ملازمین نے ادا کیے۔ راشد منہاس کے رول کے لیے ایک  پائلٹ آفیسر کا انتخاب کیا گیا۔
یہ پائلٹ آفیسر فاروق اقبال تھے جو ان دنوں پی اے ایف اکیڈمی رسالپور میں تربیتی مراحل سے گزر رہے تھے۔

فاروق اقبال نے کہا کہ ’مجھے  کبھی نہیں لگا کہ میری شکل راشد منہاس سے ملتی ہے۔‘ (فوٹو پی اے ایف)

آج کل کراچی میں مقیم اور سول ایویشن اتھارٹی سے وابستہ ایئر فورس کے سابق افسر فاروق اقبال نے اردو نیوز سے خصوصی گفتگو میں 36 برس قبل ڈرامے کے لیے ان کے انتخاب سے لے کر اس کے نشر ہونے تک کی یادیں تازہ کیں۔
والد کے گورنمنٹ سروس میں ہونے کی وجہ سےان کے تعلیمی مراحل اسلام آباد میں طے ہوئے۔ 1983 میں ایئر فورس میں سلیکشن ہوئی اور ٹریننگ کے لیے پی اے ایف اکیڈمی رسالپور وارد ہوئے۔ یہاں پر وہ پاکستان ٹیلی ویژن کے ایک پروڈیوسر کی نظر میں آگئے جو ڈرامے کی شوٹنگ کے لیے لوکیشنز کا انتخاب کرنے رسالپور آئے تھے۔
شہزاد خلیل مرحوم نے پی ٹی وی کے لیے کئی یادگار پروگرام پیش کیے۔ راشد منہاس پر بننے والے خصوصی کھیل کے لیے ان کا انتخاب ہوا۔ انہوں نے ممتاز مرزا کے ساتھ مل کر ڈرامے کی کہانی خود لکھی۔ دوسرا انہوں نے ڈرامے کی فلم بندی کے لیے انہی مقامات اور جگہوں کا انتخاب کیا جہاں راشد منہاس دوران تربیت اور بحیثیت جنگی ہوا باز کے کام کر چکے تھے۔
فاروق اقبال رسالپور میں شہزاد خلیل سے پہلی ملاقات کی تفصیل بتاتے ہوئے گویا ہوئے۔ اکیڈمی میں چونکہ سب لوگ یونیفارم میں ہوتے ہیں اس لیے کسی سویلین کی آمدورفت واضح طور پر محسوس ہوجاتی ہے۔
’ہم شہزاد خلیل صاحب کو اکیڈمی میں سینیئر آفیسرز کے ساتھ گھومتے پھرتے باتیں کرتے دیکھتے تھے۔ ان کی موجودگی کی وجہ سے بے نیاز ہم اپنی تربیت میں مصروف تھے۔‘
انہوں نے بتایا کہ شہزاد خلیل  صاحب سے ان کی پہلی ملاقات اس وقت ہوئی جب وہ ڈرامے کی ریکارڈنگ کے ساز و سامان سمیت رسالپور پہنچے۔ اس سے قبل وہ دو کیڈٹس کو ڈرامے میں کردار ادا کرنے کے لیے منتخب کر چکے تھے۔
راشد منہاس سے مشابہت انتخاب کی وجہ بنی؟
اچانک ایسا کیا ہوا کے شہزاد خلیل  نے پائلٹ آفیسر فاروق اقبال کا انتخاب کیا۔ ان سے جب یہ استفسار کیا گیا کہ ڈرامے میں کام کرنے سے قبل انہیں خود یا کسی اور نے راشد منہاس سے ان کی مشابہت کے بارے میں بتایا تو فاروق اقبال کا جواب نفی میں تھا۔
’مجھے  کبھی نہیں لگا کہ میری شکل راشد منہاس سے ملتی ہے اور نہ ہی میرے ملنے جلنے والوں نے کبھی اس بات کا اظہار کیا۔ جب ڈرامہ نشر ہوا تو ہر ایک نے یہ کہنا شروع کر دیا آپ بالکل راشد منہاس لگتے ہیں۔‘

فاروق اقبال اردو نیوز کو بتاتے ہیں کہ ’میں حیران رہ گیا کہ اداکاری میرے بس میں تھی۔‘ (سکرین گریب)

 شاید عام لوگوں کے برعکس یہ شہزاد  خلیل کی مردم شناس نظریں تھیں جنھوں نے یہ مشابہت  تلاش کر لی۔ 
’راشد منہاس کا رول نبھانا آسان نہ تھا‘
پروڈیوسر کی طرف سے راشد منہاس کے کردار کی پیشکش پر اپنے ردعمل کے بارے میں فاروق اقبال اردو نیوز کو بتاتے ہیں کہ ’میں حیران رہ گیا کہ اداکاری میرے بس میں تھی ہی نہیں اور وہ بھی ایک ایسے شخص کا رول جو پوری قوم کا ہیرو تھا۔ میرے صاف انکار کے باوجود شہزاد خلیل نے سکرپٹ حوالے کیا کہ آپ جا کر یہ پڑھیں۔ ہماری اگلی ملاقات شام کو ہوگی۔
اس ہچکچاہٹ اور انکار کی وجہ بتاتے ہوئے فاروق اقبال کہتے ہیں کہ ’سب سے زیادہ مجھے اس بات کا خوف تھا کہ راشد مہناس نشان حیدر کے مالک اور کروڑوں دلوں میں بستے ہیں۔ اگر میں صحیح طریقے سے ان کا رول نہ نبھا سکا تو میری تو خیر ہے خدانخواستہ شہید کا امیج لوگوں کے ذہن میں خراب نہ ہو جائے۔ اسی سوچ کے ساتھ میں نے یہ پیشکش قبول نہ کرنے کا فیصلہ کیا اور سکرپٹ پڑھے بغیر کمرے میں جا کر سو گیا۔‘
شام کو شہزاد خلیل نے پھر بلا بھیجا۔ میرا جواب وہی تھا۔ یہ دیکھ کر بولے کہ آپ نے کوئی ایکٹنگ نہیں کرنی۔ اپنی اصل زندگی میں آپ جیسے بولتے ہیں چلتے پھرتے ہیں ایسے ہی رہنا ہے۔ انہوں نے مجھ سے سکرپٹ کی دو تین لائنیں بلوا کر سنی اور پر جوش انداز میں کہا ’آپ ضرور کر سکتے ہیں۔ بس آپ تیاری کریں کل صبح ہم شوٹنگ شروع کر رہے ہیں۔‘
راشد منہاس کی رسالپور اکیڈمی میں ٹریننگ اور فضائیہ کالج لوئر ٹوپہ میں گزرے دنوں کے واقعات کو سب سے پہلے فلمایا گیا۔ ڈرامے کا آغاز اکیڈمی میں کیڈٹس کی پریڈ سے ہوتا ہے۔ شہزاد خلیل نے بڑی مہارت کے ساتھ پریڈ گراؤنڈ، کلاس رومز اور سپورٹس گراؤنڈ کی عکس بندی کی۔ ان تمام میں کوئی ڈائیلاگ نہیں تھا اس لیے بغیر کسی دشواری کے انجام پا گئے۔
فاروق اقبال کہتے ہیں کہ یہ ساری چیزیں ہماری روزمرہ مصروفیات کا حصہ تھیں۔ اس لیے کبھی احساس ہی نہیں ہوا کہ ہم اداکاری کر رہے ہیں اور اس کی ریکارڈنگ ہو رہی ہے۔

شہزاد خلیل نے کہا کہ ’آپ نے کوئی ایکٹنگ نہیں کرنی۔ اپنی اصل زندگی میں آپ جیسے بولتے ہیں چلتے پھرتے ہیں ایسے ہی رہنا ہے‘ (فوٹو: سکرین گریب)

جب حقیقی اداکاروں کا سامنا ہوا

اس ڈرامے کا دوسرا حصہ کراچی میں فلم بند ہوا۔ اس میں راشد منہاس کی گھریلو زندگی اور پیشہ وارانہ امور کی عکسبندی شامل تھی۔
معروف اداکارہ نیر کمال نے راشد منہاس کی والدہ جبکہ ظفر علی نے والد کا کردار ادا کیا۔ پی ٹی وی کے مشہور زمانہ ڈراموں  ’تنہائیاں‘ اور’دھوپ کنارے‘ سے شہرت حاصل کرنے والی مرینہ خان نے اپنی فنی کیریئر کا آغاز اسی ڈرامے سے کیا تھا۔
ان کے والد ائیرفورس میں افسر تھے۔ اس کھیل میں انہوں نے ایک نوجوان لڑکی کا کردار نبھایا جن کی راشد منہاس سے جذباتی وابستگی تھی۔
اردو نیوز کے اس سوال پہ کے حقیقی اداکاروں کا سامنا کرتے ہوئے اور مکالموں کی ادائیگی کی شوٹنگ میں کیا آپ مشکل پیش آئی ؟ فاروق اقبال بتاتے ہیں کہ شروع میں وہ بہت نروس ہو گئے۔ ایئر فورس کے ایک کیڈٹ کے لیے ڈائیلاگ ادا کرنا اور کیمرے کے سامنے تاثرات دینا بہت مشکل کام تھا۔
’اس مرحلے پر تمام ساتھی اداکاروں نے میری بہت حوصلہ افزائی کی۔ بطورخاص نیر کمال نے بہت پیار سے سمجھایا۔ مرینہ خان بھی میری طرح نو آموز ہونے کی وجہ سے خود بھی کچھ نروس تھی۔ ڈرامے کے پروڈیوسر نے سب اتنی چابکدستی اور پیشہ ورانہ مہارت سے فلمایا کہ میرا کوئی بھی ڈائیلاگ پانچ یا چھ لائنوں سے زیادہ کا نہیں رکھا۔

فاروق اقبال کے لیے آج بھی وہ لمحات فخر کا باعث ہیں جب انہوں نے راشد منہاس کی پیشہ ورانہ زندگی کے دیگر مراحل ناظرین کے سامنے پیش کیے (فوٹو: اردو نیوز)

راشد منہاس کی زندگی اور رہن سہن کی معلومات کے لیے ان کے خاندان سے ملاقات کے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’میری ان کی والدہ سے ملاقات ہوئی تھی۔ راشد منہاس کی عادات میں روزانہ ڈائری لکھنا بھی شامل تھا۔ ڈائری ان کی والدہ کے پاس موجود تھی۔ ڈرامے کے پروڈیوسر نے اس ڈائری کی بنیاد پر ایک سین ترتیب دیا تھا جس میں راشد منہاس کوڈائری  لکھتے اور خود کلامی کرتے دکھایا گیا تھا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’جناب خلیل چونکہ ڈرامے کے مصنف بھی تھے تو انہوں نے راشد منہاس کی والدہ سے ان کی ذاتی عادات اور گھریلو زندگی کی مکمل تفصیل معلوم کر رکھی تھی۔‘
 
کراچی کے فضائی مناظر پہلی دفعہ دکھائے گئے
راشد منہاس کراچی کے مسرور ائیر بیس سے اڑان بھرنے کی تیاری کر رہے تھے جب ایئر فورس کا بنگالی آفیسر مطیع الرحمٰن ان کے کاک پٹ میں گھس آیا۔ ڈرامے کو حقیقت سے قریب تر دکھانے کے لیے ایئر بیس کے انہی مقامات پر شوٹنگ کی گئی یہاں اصل واقعات وقوع پذیر ہوئے تھے اور خاص کر رن وے  کے اس حصے پر جہاں راشد منہاس کے انسپکٹر  ایئر ٹریفک کنٹرول کی نظروں میں آئے بغیر طیارے میں داخل ہو گئے تھے۔
ڈرامہ دیکھتے ہوئے ناظرین نے پہلی مرتبہ کراچی شہر کے فضائی مناظر دیکھے۔ شوٹنگ کے لیے فضائیہ کے طیاروں کی دستیابی کی وجہ سے پروڈیوسر نے فضائی فوٹو گرافی کے ذریعے شہر کے حسین مناظر کو بھی کیمرے کی آنکھ میں قید کیا۔
فاروق اقبال کے لیے آج بھی وہ لمحات فخر اور خوشی کا باعث ہیں جب انہوں نے راشد منہاس کی طرح طیارے میں اڑان بھرنا اور ان کی پیشہ ورانہ زندگی کے دیگر مراحل ناظرین کے سامنے پیش کیے۔
گھر والے بھی اداکاری سے بے خبر تھے
’میرے گھر والوں کو بھی ڈرامے میں میری اداکاری کی خبر نہ تھی۔ اس کے علاوہ اس خوف سے کہ اتنی بڑی شخصیت کا رول اگر ٹھیک طرح ادا نہ کیا تو کہیں راشد منہاس  کا منفی امیج نہ بن جائے میں نے کسی سے اس کا ذکر تک نہیں کیا۔ جب ڈرامہ نشر ہوا تو سب کی خوشی نہ قابل بیان تھی۔‘
ڈرامہ نشر ہونے کے بعد کی کیفیات کی یاد تازہ کرتے ہوئے آج بھی فاروق اقبال کے لہجے میں جوش اور گرم جوشی آجاتی ہے۔

فاروق اقبال کہتے ہیں کہ ڈرامہ نشر ہونے کے بعد لوگ کہتے تھے کہ ان کی شکل راشد منہاس سے بہت ملتی ہے (فوٹو: فیس بک)

اس سوال کے جواب میں کہ انہیں ڈرامے میں رول کے بعد بھی کبھی اداکاری کی پیشکش ہوئی؟ وہ بتاتے ہیں کہ کچھ لوگ میرے پاس اس حوالے سے آئے تو ضرورتھے لیکن ائیرفورس کی ملازمت کی وجہ سے اداکاری ممکن نہ تھی۔ دوسرا مجھے اس کا شوق تھا نہ کبھی پیشہ ورانہ ایکٹنگ کا سوچا۔ قوم کے ایک بیٹے کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ڈرامے میں کام کیا میری ہی پہچان کافی ہے۔
انہوں نے 1997 میں ایئر فورس  سے ریٹائرمنٹ لے لی اور 2005 سے کمرشل ایوی ایشن سے وابستہ ہیں۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ میرے بچوں کو جب راشد منہاس کے ڈرامے میں میرے رول کا پتہ لگا تو انہیں ڈرامہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔  ڈرامہ نشر ہونے کے بعد لوگ کہتے تھے کہ ان کی شکل راشد منہاس سے بہت ملتی ہے لیکن آج بھی ان کا خیال ہے کہ ’میں ایسا نہیں سمجھتا میرا ان کے ساتھ کوئی موازنہ نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ ان کی شخصیت بہت بڑی تھی وہ مجھ سے زیادہ سمارٹ تھے۔‘

بزرک کا انوکھا اظہار افسوس

راشد منہاس پر بننے والے ڈرامے کو بہت پذیرائی ملی اور اس ڈرامے کے ہیرو جہاں جاتے لوگ راشد منہاس کی وجہ سے بہت عقیدت سے ملتے۔ فاروق اقبال کو ایک بزرگ کی  سادگی اور معصومیت بھرے ردعمل کا واقعہ اب تک یاد ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’ڈرامہ نشر ہونے کے کچھ دنوں بعد میں کراچی کی کسی سڑک سے گزر رہا تھا۔ ایک بزرگ نے گاڑی کو ہاتھ دیا تو میں رک گیا اور انہیں ساتھ بٹھا لیا۔ اتفاق سے انہیں جس طرف جانا تھا میری منزل بھی وہی  تھی۔ راستے میں میں نے محسوس کیا کہ وہ مسلسل مجھے غور سے دیکھے جا رہے ہیں۔ ساتھ ہی ان کے چہرے پر دکھ کے آثار نمایاں ہو رہے ہیں۔‘
’اچانک انہوں نے اپنا ہاتھ میرے ہاتھ پر رکھا اور بولے: کچھ دن پہلے ٹی وی پر دیکھا تھا کہ آپ کا جہاز کریش ہو گیا ہے بہت افسوس ہوا۔‘
ڈرامے میں راشد منہاس کی شہادت کا منظر بطور خاص جذبات سے لبریز تھا۔ طیارہ زمین سے ٹکراتا ہے۔ آگ کے شعلے ہر طرف پھیل جاتے ہیں۔ راشد منہاس کی گھڑی اور سروس کارڈ زمین پر پڑا دکھائی دیتا ہے۔ پس منظر میں نیرہ نور کی آواز میں نغمہ کے دلسوز بول دلوں کو چھو لیتے ہیں۔
اے راہ حق کے شہیدو وفا کی تصویرو
تمہیں  وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں

شیئر: