Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

افغانستان میں نئے حکمرانوں کو شدید معاشی بحران کا سامنا ، تجزیہ نگار

38 ملین آبادی والے ملک میں حقیقی معیشت کو سنبھالا دینا ایک بڑا چیلنج ہے۔(فوٹو عرب نیوز)
افغانستان میں نئی حکومت  کے قیام کے ساتھ ہی طالبان حکمرانوں کو شدید  معاشی بحران کا سامنا ہےکیونکہ بین الاقوامی مالیاتی اداروں نے ان کے فنڈز اور امداد روک دی ہے۔
عرب نیوزمیں شائع ہونے والے مضمون کے مطابق معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ ہمیں کسی قسم کے غلط اندازے نہیں لگانے چاہئیں، طالبان اس 20 ارب ڈالر کی معیشت والے ملک کو باآسانی چلانے کے قابل ہو جائیں گے۔
ان کا خیال ہے کہ اس وقت اندورن ملک معیشت کی مضبوطی کے لیے افغان کرنسی کے استحکام کی سخت ضرورت ہے۔
گزشتہ ہفتے طالبان کی فتح کے بعد افغانستان سے فرار ہونے والے مرکزی بینکر اجمل احمدی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان کو معاشی بحران کا سامنا ہے کیونکہ کرنسی کی  قدر میں بہت کمی واقع ہوئی ہے۔
اس صورت حال کے باعث افراط زر اور ضروری درآمدات میں  کمی کا امکان ہے جو ان کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔
مشرق وسطیٰ کے اقتصادی ماہر ناصر سعیدی نے عرب نیوز کو بتایا ہے کہ اگر کوئی سیاسی تصفیہ ہوتا ہے اور امریکہ، یورپ اور خلیجی ریاستوں کے ساتھ طالبان کے تعلقات دوبارہ قائم ہوتے ہیں تو وہ اسے مستحکم کر سکتے ہیں۔
ناصر سعیدی جو کئی ماہ تک لبنان کے وزیرمعاشیات اور لبنانی مرکزی بینک کے نائب گورنر رہ چکے ہیں۔ انہوں نے اس امکان کو  اظہار کیا ہےکہ چین اور دیگرغیر مغربی ممالک کو طالبان کی حکومت میں افغانستان میں اقتصادی  فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ موجودہ منظر نامہ معاشی انتشار کا شکار ہے۔ پچھلے ہفتے کابل کے سقوط کی علامت ملک کی تیزی سے قبضے سے پہلے ہی افغان معیشت گڑبڑ تھی۔

امریکہ افغانستان کو مالی معاونت فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک رہا ہے۔ (فوٹو عرب نیوز)

غیرملکی طاقتوں کے زیرسایہ دو دہائیوں میں افغان معیشت نے شروع میں تیز رفتاری سے ترقی کی، امریکی اخراجات کے باعث بنیادی طور پر فوجی اور کچھ حد تک سویلین انفراسٹرکچر کوتقویت ملی۔
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ 2015 تک وہاں معاشی سرگرمیوں اور معیار زندگی میں تیزی سے بہتری آئی۔
بتایا جاتا ہے کہ پچھلے پانچ سال سے افغانستان کی معیشت جمود کا شکار ہے کیونکہ بین الاقوامی امداد بہت کم ہے۔
عالمی بینک کے مطابق وہاں پر فی کس مجموعی ملکی پیداوار سالانہ507 ڈالر رہی ہے جو کہ عالمی منڈی میں نچلی سطح کے زمرے میں آتی ہے۔
عالمی بینک کے مطابق  افغانستان کا شمار کم دولت رکھنے والے ممالک میں ہوتا ہے، جس کے باعث افغانستان کو مسائل کا سامنا ہے۔

ان حالات میں افغانستان میں سرمایہ کاری کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ (فوٹو عرب نیوز)

لندن میں قائم کیپٹل اکنامکس کے ایشیائی ماہر اقتصادیات گیرتھ لیتھر نے کہا ہے کہ گزشتہ 20 برس میں یہاں زیادہ تر معاشی پیش رفت بیرونی معاونت کی وجہ سے ہوئی جو کہ امداد کے بغیر رک جائے گی اور اہم غیر ملکی عطیات تقریبا مکمل طور پر بند ہو جائیں گے۔
واضح رہے کہ امریکہ نے افغان سینٹرل بینک کی جانب سے امریکہ میں موجود 9 ارب ڈالر کے غیر ملکی ذخائر تک رسائی معطل کرتے ہوئے یہاں سے فوجی انخلاء کا اعلان کیا تھا۔
یہاں امریکہ اپنے 20 سالہ قیام کے دوران افغانستان کو مالی معاونت فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک رہا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ اس نے تین ٹریلین ڈالر خرچ کیے ہیں۔
امریکی کانگریس نے وزیر خزانہ جینیٹ یلین کو لکھے گئے ایک خط میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف دہشت گردانہ کارروائیوں کی حمایت کرنے والی حکومت کے لیے مالی معاونت کی مخالفت واضح کر دی ہے۔

افغانستان میں2015 تک معاشی سرگرمیوں اور معیار زندگی میں قدرے بہتری آئی۔ (فوٹو عرب نیوز)

اس کےعلاوہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ( آئی ایم ایف) نے افغانستان کو قرض لینے کی سہولت منقطع کر دی ہے جو نئی حکومت کے لیے فوری طور پر ایک بڑا نقصان ہوگا۔
آئی ایم ایف نے وضاحت کی ہے کہ عالمی برادری کے اندر پائے جا ننے والے اعتماد کے فقدان کی وجہ سے اس نے فوری طور پر370 ملین ڈالر کی امداد معطل کر دی ہے۔
ان حالات میں، امریکہ اور آئی ایم ایف کی قیادت میں دیگر بڑے مغربی اداروں بھی افغانستان میں سرمایہ کاری کی توقع نہیں کی جا سکتی۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مغربی غیرملکی امداد کی کمی کو پورا کرنے کے لیے نئے حکمران کس قسم کی معاشی حکومت قائم کر سکتے ہیں؟
38 ملین آبادی والے ملک میں حقیقی معیشت کو سنبھالا دینا ایک بڑا چیلنج ہے اب دیکھنا یہ باقی ہے کہ طالبان عوام کی خواہشات کو کس حد تک پورا کر سکتے ہیں۔
 

شیئر: