Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ماریہ میمن کا کالم: افغانستان کا مستقبل؟ سوال ہی سوال

سب سے اہم سوال یہ کہ کیا یہ طالبان بدلے ہوئے طالبان ہیں؟ (فوٹو: اے ایف پی)
 پچھلا ہفتہ بلکہ پچھلے 48 گھنٹے افغانستان کی صورتحال دیکھنے والوں کے لیے اضطراب اور حیرانی میں گزرے۔ اگر دیکھنے والے مضطرب اور حیران ہیں تو جو اس صورتحال کے درمیان میں ہیں ان پر کیا گزر رہی ہوگی؟
افغانستان کی صورتحال مہینوں اور ہفتوں میں نہیں گھنٹوں میں بدلی ہے۔ اس صورتحال نے ان گنت سوالوں کو جنم دیا ہے۔ ان میں سے کافی سوال کیوں اور کیسے سے متعلق ہیں۔
آخر کیوں افغانستان کی تین لاکھ سے زائد اربوں ڈالر سے تربیت یافتہ فوج ریت کا ڈھیر ثابت ہوئی؟ سوال امریکی پالیسیوں سے بھی متعلق ہیں جو دو دہائیوں کے بعد بھی حکومت کو ایک دن بھی اپنے پاؤں پر کھڑا نہ کر سکے؟ اور سوال افغانستان کی اس اشرافیہ کے بھی متعلق ہیں جنہوں نے جوق در جوق فرار ہوتے ہوئے ذرا دیر نہیں کی؟ سوال یہ بھی ہیں کہ کیا یہ سب ایک گرینڈ گیم پلان کا حصہ ہے؟
زیادہ سوال مگر افغانستان کے مستقبل سے متعلق ہیں۔ کیا طالبان افغانستان پر بلا شرکت غیرے حکمرانی کریں گے یا شراکت داری کو بھی اہمیت دیں گے؟ کیا وہ اقتدار میں آنے کے بعد پچھلے دور کی نشانیوں کو جڑ سے اکھاڑنے کی طرف جائیں گے یا پھر ان کی بیناد پر نئے دور کا آغاز کریں گے؟
کیا طالبان مزید بین الاقوامی معاہدوں میں شامل ہوں گے یا پھر ایک یک طرفہ پالیسی اپنائیں گے؟ بین الااقومی سطح پر کونسا ملک طالبان کو تسلیم کرے گا اور کیا اقوام متحدہ بھی ان کے نمائندے کو اس دفعہ سند تسلیم دے گا؟
 

سوال یہ ہے کہ کیا طالبان افغانستان پر بلا شرکت غیرے حکمرانی کریں گے؟ (فوٹو: اے پی)

چین کی طرف اس بار طالبان خصوصی نرم گوشہ دکھا رہے ہیں کیا اس کا مثبت جواب ملے گا یا چین تیل اور تیل کی دھار دیکھے گا؟ افغانستان سے سفارت کاروں کا انخلا جاری ہے کیا دیگر ادارے جو صحت، مہاجرین اور ترقی کے لیے کام کر رہے ہیں ان کو بھی نکلنا پڑے گا؟
سب سے اہم سوال یہ کہ کیا یہ طالبان بدلے ہوئے طالبان ہیں؟ دوسرے ملکوں کی ترجیحات تو شاید آہستہ آہستہ سامنے آئیں مگر افغانستان کے عوام کے لیے تو اثرات شروع ہو گئے ہیں۔ کیا طالبان اپنی پرانی روش کو برقرار رکھیں گے اور افغانستان کے موجودہ سیاسی، معاشرتی اور تعلیمی نظام کو لپیٹ کر اپنا پرانا نظام لائیں گے؟ سب سے زیادہ اضطراب خواتین کے حوالے سے ہے۔
افغانستان کی فوج پر تمام محنت تو ضائع ہوئی ہے مگر پچھلی دو دہائیوں میں خواتین کی تعلیم اور روزگار کی صورحال  میں نمایاں بہتری آئی ہے ۔ کیا وہ اسی طرح سکول اور دفاتر میں جائیں گی جیسے پچھلے ہفتے یا پچھلے مہینے گئی تھیں؟ کیا طالبان کے  افغانستان میں صحافت ، اخبار اور ٹی وی اس طرح چلیں گے جیسے اب تک چل رہے تھے یا پھر ایک ثقافتی اور سیاسی بلیک آؤٹ ہو گا؟
کیا نظام انصاف اسی طرح ہو گا جیسے پچھلے دور میں تھا یا پھر اس میں جدیدیت کی جگہ بھی ہو گی؟ کیا مغرب کی طرف سےامداد بند ہونے کے بعد طالبان اور ملکوں کی طرف دیکھیں گے یا پھر افغانستان کی معیشت مزید دگر گوں ہو جائے گی؟ 

افغانستان کے حالات آنے والے دنوں میں بہتری سے زیادہ  تشویش کی طرف ہی جاتے نظر آتے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

افغانستان کی صورتحال میں پاکستان کے لیے بھی سوال ہیں؟ کیا افغانستان میں طالبان کی کامیابی سے پاکستان میں اپنے آپ کو طالبان کہنے والے عناصر بھی شہہ پکڑیں گے؟ اگر افغانستان سے دوبارہ مہاجرین کا پاکستان میں انخلا ہوتا ہے تو پاکستان کی کیا پالیسی ہو گی؟ افغانستان سے پاکستان کی سرزمین پر جو دہشت گرد حملے ہوتے رہیں ان پر تبدیل شدہ صورتحال کا کیا اثر ہو گا ؟ اور اگر دنیا کی بڑی طاقتیں طالبان کو تسلیم نہیں کرتی تو پاکستان  کیا حکمت عملی اختیار کرے گا ؟
مستقبل میں ان میں سے کچھ سوالوں کے جواب مل جائے گا اور مزید نئے سوال بھی جنم لیں گے۔ ان سوالات میں زیادہ کا دارومدار اب طالبان کے رویے پر ہے جن کی طرف باقی دنیا کی نظریں ہیں کہ وہ دوبارہ تاریخ کو دہراتے ہیں یا نہیں؟  یہ امر البتہ واضح ہے کہ افغانستان کے حالات آنے والے دنوں میں بہتری سے زیادہ  تشویش کی طرف ہی جاتے نظر آتے ہیں۔

شیئر: