Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امن کا سفر: برطانوی شخص کا حج کے لیے برطانیہ سے سعودی عرب پیدل سفر

آدم محمد کو عربی اور فارسی سمیت چار زبانیں آتی ہیں (فوٹو: عرب نیوز)
ایک برطانوی مسلمان نے اگلے سال فریضہ حج ادا کرنے کے لیے پیدل سفر کا آغاز کیا ہے۔
آدم محمد عراقی نژاد برطانوی شہری ہیں، ان کی عمر 52 برس ہے اور وہ الیکڑیکل انجینیئر ہیں۔ انہوں نے برطانیہ سے یکم اگست کو مکہ کے لیے اپنا سفر شروع کیا تاکہ وہ اگلے سال جولائی تک سعودی عرب پہنچ جائیں۔
اس وقت وہ نیدرلینڈز پہنچ گئے ہیں اور اس کے بعد وہ جرمنی، چیک رپبلک، بلغاریہ، ترکی، شام اور پھر اردون پہنچیں گے۔ ان یہ پیدل سفر 65 سو کلومیٹر کا ہے اور وہ اوسطاً روزانہ 18 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرتے ہیں۔
آدم محمد کا کہنا تھا کہ ’ایک دن جب میں نیند سے جاگا تو حج کے لیے مکہ جانے کا ارادہ کر لیا۔ اس کا مقصد راستے میں عبادت کرنا، اللہ سے معافی مانگنے اور ساری دنیا کے لیے اس کی رحمت کا طلب گار ہونا تھا۔ کسی خاص نسل، شناخت اور ایمان رکھنے والوں کے لیے نہیں بلکہ سب کے لیے۔‘
آدم محمد کے پاس ایک ہتھ ریڑھی ہے جس کا وزن تقریباً 250 کلوگرام ہے۔ اس ریڑھی پر انہوں نے لاؤڈ سپیکر رکھے ہیں جن پر وہ قرآن کی تلاوت چلاتے ہیں۔
ان کہنا ہے کہ وہ محبت، امن اور برابری کا پیغام دے رہے ہیں۔
انہوں نے نے بتایا کہ ’بہت سارے لوگ ملتے ہیں۔ وہ مجھے کھانا اور پیسے دیتے ہیں۔ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو سب کچھ چھوڑ کر میرے ساتھ رہتے اور کچھ میرے ساتھ ریڑھی کو دھکا لگاتے ہیں۔‘
آدم محمد کے سفر کے لیے فنڈ ریزنگ کرنے کے لیے یکم اگست کو ’گو فنڈ می‘ پر پیچ بنایا گیا اور اب تک 41 ہزار ڈالرز سے زیادہ رقم جمع ہو چکی ہے۔ تاہم ان کا ہدف ایک ہزار ڈالر تھا۔
ان کی ریڑھی کا سائز ایک تابوت کے برابر ہے جسے انہوں نے ایک مقامی ویلڈر سے بنوایا تھا اور بجلی کا انتظام بھی کیا تھا تاکہ وہ اس میں کھانا پکانے کے ساتھ نیند بھی پوری کر سکیں۔

وہ روزانہ سوشل میڈیا پر اپنے سفر کی ویڈیوز شیئر کرتے ہیں اور ٹک ٹاک پر ان کے پانچ لاکھ فالورز ہیں (فوٹو عرب نیوز)

ریڑھی پر ان کے مشن کا نام ’امن کا سفر‘ لکھا ہے اور اس کے پشت پر ’آل لائیوز میٹر‘ تحریر کیا گیا ہے۔
کورونا کی وبا شروع ہونے کے بعد دو بچوں کے باپ آدم محمد نے بہت ساری چیزوں پر سوالات اٹھانے شروع کیے۔ گہرائی سے قرآن کا مطالعہ کیا اور انسانی رویے پر غور کرنے کا آغاز کیا۔
ان کہنا ہے کہ وہ راستے میں لوگوں کو یاد کروانا چاہتے ہیں کہ زندگی بہت مختصر ہے اور کوئی بڑا کام کرنا چاہیے۔
’تمام انسانوں کو پیغام ہے کہ نفرت کو ترک کریں، لوگوں کو پرکھنا چھوڑ دیں، ہم انسان ہیں اور ہم بھائی ہیں۔ مزید یہ کہ یورپ میں تین سے چار کروڑ مسلمان ہیں جو اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ ہم یہاں پناہ گزینوں کے طور پر امن کی تلاش میں آئے۔ یورپ کے لوگوں نے ہمیں سب کچھ دیا۔ ہمیں ان کی عزت کرنی چاہیے۔‘
وہ روزانہ سوشل میڈیا پر اپنے سفر کی ویڈیوز شیئر کرتے ہیں اور ٹک ٹاک پر ان کے پانچ لاکھ فالورز ہیں۔
آدم محمد کو عربی اور فارسی سمیت چار زبانیں آتی ہیں اور وہ عراقی فوج میں ملازمت اور جنگی قیدی بننے کے بعد 1990 میں برطانیہ آئے۔

شیئر: