Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

طالبان کے سپریم لیڈر ملا ہبت اللہ سامنے کیوں نہیں آ رہے؟

طالبان اپنے سربراہ کو عوام کی نگاہوں سے اوجھل رکھنے کی ایک طویل تاریخ رکھتے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی
افغانستان میں اقتدار سنبھالنے کے بعد طالبان کی بڑی تعداد کابل میں داخل ہوچکی ہے۔ ان میں سخت گیر کمانڈوز، مدرسوں کے مسلح طلبا اور برسوں کی جلاوطنی کے بعد آنے والے رہنما شامل ہیں۔
ان سب میں اہم استثنائی مثال طالبان کے سپریم لیڈر ہبت اللہ اخونزادہ کی ہے جن کے بارے میں طالبان نے اتوار کو کہا کہ وہ جلد ہی منظرعام پر آ سکتے ہیں۔
فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ وہ قندھار میں موجود ہے۔
ہبت اللہ اخونزادہ جو مبینہ طور پر کمانڈر ہیں، وہ 2016 سے ایک داخلی بحران کے بعد طالبان کی سربراہی کر رہے ہیں۔
افغانستان میں جاری شورش کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد ہبت اللہ کو جہادی تحریک کو متحد کرنے کا بڑا کام سونپا گیا تھا جو طاقت کی کشمکش کے دوران مختصر عرصے کے لیے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی تھی۔
ہبت اللہ اخونزادہ کے پیشرو ملا اختر منصور کی ہلاکت اور اس انکشاف کے بعد کہ طالبان کے رہنماؤں نے تحریک کے بانی ملا عمر کی موت کو چھپایا تھا، اختیارات کی یہ جنگ شروع ہوئی تھی۔

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ وہ قندھار میں موجود ہے۔(فوٹو: اے ایف پی)

ہبت اللہ اخونزادہ کی روزمرہ سرگرمیوں کے بارے میں ابھی تک بہت کم لوگوں کو معلوم ہے۔ ان کا عوامی تعارف بڑی حد تک اسلامی تعطیلات کے دوران سالانہ پیغامات جاری کرنے تک محدود ہے۔
طالبان نے ابھی تک ہبت اللہ اخونزادہ کی صرف ایک تصویر جاری کی ہے۔
یہ اعلان کہ اخونزادہ جلد ہی عوام کے سامنے آئیں گے، ایسے وقت میں ہوا ہے کہ جب طالبان کے مختلف دھڑوں کے سربراہوں نے کابل کی مساجد میں کھلے عام تبلیغ، مخالف شخصیات سے ملاقات اور افغان کرکٹ حکام سے بات چیت کی ہے۔
ملا ہبت اللہ اخونزادہ کون ہیں؟
اردو نیوز کی نامہ نگار رابعہ اکرم خان کے مطابق ہبت اللہ اخونزادہ طالبان کے سابق چیف جج رہ چکے ہیں۔ 2001 میں طالبان حکومت کے سقوط کے بعد ملا ہبت اللہ نے کوئٹہ کے قریب کچلاک میں اپنا مدرسہ چلایا ہے۔ ان کو شیخ ہبت اللہ کچلاک اخونزادہ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔
ملا ہبت اللہ اخونزادہ قندھار کے پنجوائی ضلع میں پیدا ہوئے اور ان کا تعلق علیزئی قبیلے سے ہیں، وہ طالبان تحریک میں 1994 میں شامل ہوئے تھے۔
اس سے قبل سویت یونین کے خلاف اسی کی دہائی میں لڑے تھے۔
جب طالبان 1996 میں کابل پر قبضہ کیا تو یہ جلال آباد میں چیف جج تھے۔
ملا ہبت اللہ اخونزادہ روایتی مذہبی شخص ہیں۔ چیف جج کی حیثیت سے طالبان میں ان کو احترام کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔
ماہر افغان امور سمیع یوسفزئی نے اردو نیوز کو بتایا کہ مدرسے کی تقاریب میں ملا ہبت اللہ کو تقریر کرتے ہوئے سنا گیا تھا لیکن بطور طالبان سربراہ نہیں۔
’ان کو امیر منتخب کرنا ایک بہت سخت فیصلہ کیا کیونکہ کچھ لوگ ان کے امیر بننے کے خلاف تھے مولوی عبدالرؤف، مولوی عبدالمنان نیازی اور مولوی محمد رسول خلاف تھے۔‘
سمیع یوسفزئی کا کہنا ہے کہ چونکہ افغان طالبان ایک مضبوط تحریک ہے، اس میں اختلاف کے مواقع کم ہے اور امیر کا فیصلہ ناقابل اختلاف ہوتا اور اس کو ماننا ہوتا ہے۔
’یہ اسلامی حکومت کی بات کرتے ہیں تو مطلب یہ ہے کہ اتھارٹی ان کے پاس ہوگی۔ یہ تو خود بولتے ہیں کہ ہم ٹینیکل لوگ نہیں نہ انجینیئر ہیں اور نہ ہی ڈاکٹرز لیکن ہم اعلیٰ قیادت میں ہوں گے اور وہیں سے سب انتظام سنبھالیں گے جیسے ایک مذہبی حکومت ہوگی۔ یہ نگرانی کریں گے، شکایات دیکھیں گے۔ کسی کو نہیں معمول ان کی صلاحیت کیا ہے، سیاسی سوچ کیا ہے، وژن کیا ہے۔ یہ روایتی ملا ہیں۔‘
طالبان کی رازداری کی تاریخ
طالبان اپنے سربراہ کو عوام کی نگاہوں سے اوجھل رکھنے کی ایک طویل تاریخ رکھتے ہیں۔
تحریک طالبان کے پراسرار بانی ملا محمد عمر اپنی تنہائی پسندی کی وجہ سے مشہور تھے اور 1990 کی دہائی میں طالبان کے اقتدار کے دوران شاذ و نادر ہی وہ کابل کا سفر کرتے تھے۔

تحریک طالبان کے پراسرار بانی ملا محمد عمر اپنی تنہائی پسندی کی وجہ سے مشہور تھے۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

ملا عمر بڑی حد تک لوگوں کی نظروں سے اوجھل رہے یہاں تک کہ وہ آنے والے وفود سے ملنے سے بھی گریزاں ہی رہے۔
وہ جنگجو تحریک طالبان کی جائے تاسیس اور 1990 کی دہائی میں طالبان حکومت کا مرکز رہنے والے شہر قندھار میں اپنے کمپاؤنڈ میں ہی مقیم رہے۔
اس کے باجود ملا عمر کا بولا ہوا لفظ ہی قانون ہوا کرتا تھا اور  ان کے بعد اس تحریک کی سربراہی کرنے والی کوئی ایک بھی شخصیت ایسی سامنے نہیں آئی جسے ان جیسا احترام دیا گیا ہو۔
طالبان کے اس اعلان سے پہلے کہ اخونزادہ جلد ہی منظرعام پر آسکتے ہیں، انٹرنیشنل کرائسس گروپ کے ایشیا پروگرام کے سربراہ لوریل ملر نے کہا کہ انہوں نے تحریک کے بانی ملا عمر کی طرح ایک ’تنہائی پسند‘ انداز اپنایا ہے۔
لوریل ملر نے ملا اختر منصور کی امریکی ڈرون حملے سے ہلاکت کا حوالہ دیتے ہوئے مزید کہا کہ ملا ہبت اللہ کا روپوش رہنا سکیورٹی خدشات کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے۔

ملا ہبت اللہ کے منظرعام پر آنے کا اعلان ان کی صحت کے بارے میں ان افواہوں کے بعد آیا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے کہا کہ ’یہ بھی ممکن ہے کہ اپنے آپ کو ظاہر کرنے کے بعد وہ ملا عمر کی طرح روایتی انداز میں اپنے اختیار اور اتھارٹی سے دستبردار ہو جائیں۔‘
ملا ہبت اللہ کے منظرعام پر آنے کا اعلان ان کی صحت کے بارے میں ان افواہوں کے بعد آیا ہے جو برسوں سے گردش کر رہی ہیں۔ پاکستان اور افغانستان میں چلنے والی سرگوشیوں سے یہ تأثر ابھرا تھا کہ وہ کووڈ کا شکار ہوئے یا پھر انہیں بم دھماکے میں مارا جا چکا ہے۔
2015 میں اس انکشاف کے بعد کہ طالبان قیادت نے برسوں تک ملا عمر کی موت کو چھپائے رکھا، تحریک میں طاقت کی ایک مختصر مگر خونی کشمکش کو جنم دیا تھا جس کی وجہ سے کم از کم ایک بڑا دھڑا طالبان سے الگ ہو گیا تھا۔
امکان یہ ہے کہ ملا ہبت اللہ ایک ایسے وقت میں منظرعام پر آئیں گے جب طالبان افغانستان میں حکومت بنانے کی تیاری کر رہے ہوں گے اور اس تحریک کے اندر موجود ہزاروں دھڑے پورے افغانستان سے مختلف نوع کے مفادات کی نمائندگی کریں گے۔
طالبان اس وقت لڑائی سے حکمرانی کی طرف منتقل ہو رہے ہیں، ایسے وقت میں تمام دھڑوں کو مطمئن کرنا طاقت کو مستحکم کرنے کے لیے اہم ہوگا۔
اگر اس وقت تحریک میں سب سے اوپر کوئی خلا موجود رہا تو یہ ایسی تحریک کو غیر مستحکم کر سکتا ہے جو کئی دہائیوں کے تنازع کے دوران ایک ساتھ رہنے میں کامیاب رہی ہو، جس کے ہزاروں جنگجو مارے گئے ہوں اور اعلیٰ رہنماؤں کو قتل کیا گیا ہو یا گوانتانامو بے میں واقع امریکی جیل بھیج دیا گیا ہو۔
کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ امریکی قیادت والی افواج کے افغانستان سے حتمی انخلا تک طالبان اپنے سربراہ کو منظرعام پر لانے کے لیے کچھ وقت لے رہے ہیں۔

شیئر: