Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

افغانستان پر طالبان کا کنٹرول، سابق سویت یونین کے ممالک کے خدشات کیا؟

جینیفر مرتضشیویلی کا کہنا تھا کہ ’طالبان نے سنٹرل ایشیا کی طرف بڑھنے کی کوشش نہیں کی۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)
افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کے بعد سابق سویت یونین میں شامل رہنے والے اس کے ہمسایہ ممالک کے سر پر جہادی خطرے اور پناہ گزینوں کے بحران کا خوف طاری ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق اگرچہ طالبان نے کبھی افغانستان کے علاوہ کسی جگہ پر قبضہ نہیں کیا، لیکن ان کے گذشتہ دور حکومت کو سامنے رکھتے ہوئے سینٹرل ایشیا کے ممالک کو خدشات لاحق ہیں۔
علاقے کی حکومتیں ایک مرتبہ پھر عدم استحکام کے خطرے سے نبرد آزما ہیں اور دوسری طرف وہاں کے عوام نئے ہمسایوں کی آمد کی تیاریاں کر رہے ہیں۔
ازبکستان کے شہر ترمیز میں ایک 26 سالہ کاروباری شخص عبدالعزیز کا کہنا ہے کہ ’اگر پناہ گزین آتے ہیں تو ہم ان اپنا گھر اور کھانا دیں گے۔‘
یہ احساسات روس کے نہیں ہیں جس نے ان ممالک سے کہا ہے کہ مغرب کی باتوں میں آ کر افغانوں کو پناہ نہ دیں۔
ازبکستان میں پنا گزین پہنچے ہیں لیکن حکومت نے کہا ہے کہ وہ انہیں یہاں سے صرف گزرنے کی اجازت دے رہے ہیں۔
حکومت نے 20 اگست کو کہا تھا کہ اس نے تاشقند ائرپورٹ سے قریب دو ہزار یورپی اور افغان شہریوں کو انخلا میں مدد کی ہے۔
ازبکستان کی حکومت نے یہ بھی کہا تھا کہ طالبان کی جانب سے حفاظت کی یقین دہانی کے بعد اس نے 150 افغان شہریوں کو واپس بھیجا تھا۔
تاہم یہ اطلاعات بھی سامنے آ رہی ہیں کہ پناہ گزینوں کی بڑی تعداد دریائے آمو کے راستے ازبکستان میں داخل ہو رہی ہے۔ افغان سفارتخانے کے ایک اہلکار نے اے ایف پی کو بتایا کہ ترمیز میں موجود ایک کورونا سینٹر میں 15 سو افغان شہری موجود ہیں۔
تاشقند نے اس صورتحال پر خاموشی اختیار کی ہے۔ اے ایف پی کو کورونا سینٹر اور سرحد کے قریب لگائے گئے کیمپ تک رسائی نہیں دی گئی۔
جب طالبان نے 1996 سے 2001 تک افغانستان پر حکومت کی تو اسلامک موومنٹ آف ازبکستان نے افغانستان اور پاکستان کو اپنا مسکن بنا لیا۔

تاجکستان نے طالبان کے ساتھ سرکاری سطح پر بات چیت کرنے سے انکار کیا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

ان شدت پسندوں نے 1999 میں کرغزستان میں گھس کر ایک گاؤں پر قبضہ کر لیا۔ ازبکستان نے اس گروپ پر تاشقند میں بم حملوں کا الزام لگایا۔
یونیورسٹی آف پیٹسبرگ کی جینیفر مرتضشیویلی کا کہنا تھا کہ ’طالبان نے سینٹرل ایشیا کی طرف بڑھنے کی کوشش نہیں کی، لیکن ان کے پاس ان ممالک کے جنگجو موجود ہیں جنہیں وہ استعمال کر سکتے ہیں۔‘
روس کے صدر نے سینٹرل ایشین ممالک کو رواں ماہ خبردار کیا تھا کہ شدت پسند ’پناہ گزینوں کے بھیس‘ میں داخل ہو سکتے ہیں۔
تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان میں سے صرف تاجکستان نے طالبان کے ساتھ سرکاری سطح پر بات چیت کرنے سے انکار کیا ہے۔

قازقستان اور کرغستان نے کہا ہے کہ انہوں نے پناہ گزینوں کو قبول کرنے سے انکار کیا ہے (فوٹو اے ایف پی)

پیٹسبرگ یونیورسٹی میں سکول آف ایڈوانس سٹڈیز کے ریسرچر مولوجانوؤ پرویز کا کہنا تھا کہ ’ترکمانستان اور ازبکستان معاشی معاملات کو سامنے رکھتے ہوئے طالبان کے ساتھ مضبوط تعلقات استوار کر سکتے ہیں۔ تاہم تاجکستان کے لیے سکیورٹی سب سے اہم ہوگی۔‘
تاجکستان اور ترکمانستان نے کہا ہے کہ وہ پناہ گزینوں کو پناہ دیں گے لیکن یہ بھی کہا ہے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے اس عمل میں پیچیدگی آ سکتی ہے۔
دوسری جانب قازقستان اور کرغستان نے کہا ہے کہ انہوں نے پناہ گزینوں کو قبول کرنے سے انکار کیا ہے۔

شیئر: