Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امریکی انخلا کے بعد داعش کے حملے بند ہو جائیں گے: طالبان

طالبان نے کہا ہے کہ وہ داعش کے حملوں کے خلاف کریک ڈاؤن کریں گے اور وہ توقع کرتے ہیں کہ غیر ملکی افواج کے ملک سے نکل جانے کے بعد داعش کے حملے ختم ہو جائیں گے۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک انٹرویو میں فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ہم امید کرتے ہیں کہ وہ افغان جو کہ داعش سے متاثر ہیں، وہ غیر ملکیوں کی غیر موجودگی میں اسلامی حکومت کی تشکیل دیکھ کر اپنی کارروائیاں ترک کردیں گے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ اگر وہ جنگ کی صورت حال پیدا کرتے ہیں اور اپنی کارروائیاں جاری رکھتے ہیں تو ہم ان سے نمٹیں گے۔
جمعرات کو کابل ہوائی اڈے کے باہر داعش کی جانب سے ایک تباہ کن خودکش بم حملے میں سیکڑوں افراد ہلاک ہوئے جو ملک سے نکلنے کے کوشش میں تھے اور ان کے ساتھ 13 امریکی فوجی اہلکار بھی ہلاک ہوئے۔
بعد ازاں پینٹاگون نے کہا کہ امریکی فوج نے اتوار کو ایک ڈرون حملہ کیا جس میں کابل ایئرپورٹ کے قریب داعش کی ایک کار کو نشانہ بنایا گیا۔
چند دن قبل طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا تھا کہ ’امریکہ کو ایسی کارروائیاں کرنے کی اجازت نہیں ہے، ہماری آزادی کا احترام کیا جانا چاہیے۔‘
خیال رہے کہ منگل کو ہزاروں غیر ملکیوں اور ان افغانوں کا انخلا جو طالبان کے تحت خطرہ محسوس کرتے ہیں، مکمل ہونے والا ہے۔

داعش گزشتہ سال طالبان اور واشنگٹن کے درمیان ہونے والے فوجیوں کے انخلا کے معاہدے کی سخت ناقد ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اے ایف پی کے مطابق داعش گزشتہ سال طالبان اور واشنگٹن کے درمیان ہونے والے فوجیوں کے انخلا کے معاہدے جس میں طالبان نے سیکیورٹی کی ضمانتیں پیش کیں، کی سخت ناقد ہے۔
کابل کے سقوط کے بعد شائع ہونے والے داعش کے ایک تبصرے میں انہوں نے طالبان پر امریکی انخلا کے معاہدے کے ساتھ جہادیوں کو دھوکہ دینے کا الزام لگایا اور عسکریت پسندوں کے رابطوں پر نظر رکھنے والے سائٹ انٹیلی جنس گروپ کے مطابق انہوں نے اپنی لڑائی جاری رکھنے کا عزم کیا تھا۔
اس موسم گرما میں طالبان نے اپنے جنگجوؤں کو آزاد کرنے کے لیے جیل توڑنے کے بعد بہت سے داعش کے عسکریت پسندوں کو بھی رہا کر دیا جو کہ اب ایک مہلک غلطی ثابت ہو رہی ہے۔

’یورپی یونین افغانستان کے پڑوسی ممالک کو مالی مدد فراہم کرے‘

دوسری جانب یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزپ بوریل نے کہا ہے کہ یورپی یونین کو چاہیے کہ وہ افغانستان کے پڑوسی ممالک کو مالی مدد فراہم کرے تاکہ وہ طالبان سے فرار ہونے والے مہاجرین کو سنبھال سکیں۔
طالبان کی 15 اگست کو کابل میں اقتدار میں واپسی نے بہت سے افغانوں کے مستقبل کو غیر یقینی صورتحال سے دوچار کر دیا ہے اور اس خدشے کو جنم دیا ہے کہ لاکھوں لوگ پڑوسی ممالک اور یورپ میں پناہ لے سکتے ہیں۔
جوزپ بوریل نے اٹلی کے کوریئر ڈیلا سیرا اخبار کو بتایا  کہ ’ہمیں افغانستان سے متعلق مسائل کے حل کے لیے پڑوسی ممالک کے ساتھ تعاون بڑھانا ہوگا۔ ہمیں پناہ گزینوں کی پہلی لہر کی مدد کرنی چاہیے۔‘

جوزپ بوریل نے اٹلی کے کوریئر ڈیلا سیرا اخبار کو بتایا  کہ ’ہمیں افغانستان سے متعلق مسائل کے حل کے لیے پڑوسی ممالک کے ساتھ تعاون بڑھانا ہوگا۔ (فوٹو:اے ایف پی)

’ملک سے بھاگنے والے افغان سب سے پہلے روم نہیں پہنچیں گے بلکہ شاید  وہ تاشقند پہنچیں۔ ہمیں ان ممالک کی مدد کرنے کی ضرورت ہے جو پناہ گزینوں کو وصول کرنے میں فرنٹ لائن پر ہوں گے۔‘
اس سوال پر کہ کیا وہ افغان مہاجرین کی میزبانی کے لیے یورپی مالی امداد حاصل کریں گے انہوں نے کہا ’یورپ کی نئے لوگوں کو قبول کرنے کی صلاحیت کی اپنی حدود ہیں اور مضبوط تعاون کے بغیر کچھ بھی نہیں کیا جا سکتا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’پڑوسی ممالک یورپ سے زیادہ اور پہلے متاثر ہوں گے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ان ممالک کو مالی مدد دی جائے جیسا کہ ہم نے ترکی کے ساتھ کیا ہے۔‘

شیئر: