Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خلیج کے خطے کو ناقابل برداشت گرمی کا سامنا ہے

شمسی توانائی سے تقریبا ایک لاکھ 60 ہزار گھروں کو بجلی فراہم ہو گی۔ (فوٹو عرب نیوز)
خلیجی شہر اپنی سخت گرمیوں کی وجہ سے تو مشہور ہیں ہی مگر ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ آب و ہوا کی تبدیلی جلد ہی ایندھن سے مالا مال اس خطے کے کچھ حصوں کو انسانوں کے لیے ناقابل رہائش بنا سکتی ہے۔
اے ایف پی نیوز کے مطابق  زیادہ آبادی والے ساحلی شہروں میں سال کے اکثر مہینوں میں یومیہ کی بنیاد پر درجہ حرارت باقاعدگی سے 40 ڈگری سینٹی گریڈ تک رہتا ہے اورہوا میں  نمی کا عنصر بھی زیادہ ہوتاہے۔
رواں ماہ اقوام متحدہ کے انٹرگورنمنٹل پینل آن کلائمیٹ چینج (IPCC) کی ایک نئی رپورٹ میں واضح طور پر دکھایا گیا ہے کہ انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے آب و ہوا  میں خدشے سے بھی زیادہ تیزی سے تبدیلی آ رہی۔

امارات کا مقصد 2050 تک شفاف توانائی پر اپنا انحصار 50 فیصد تک بڑھانا ہے۔ (فوٹو عرب نیوز)

متحدہ عرب امارات بھی دنیا کے سب سے زیادہ  خشک ممالک میں سے ایک ہے اور گزشتہ کئی برسوں سے اس نے مصنوعی بارش برسانے کے مقصد سے ہوائی جہازوں کے لیے استعمال کیا ہے۔
میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے ہائیڈرولوجی اور آب و ہوا کے پروفیسر الفتح الطاہر نے کہا  ہے کہ عمومی طور پر گرمی کے دباؤ کی سطح میں نمایاں اضافہ ہوگا۔
انہوں نے خطے میں آب و ہوا میں تبدیلی کے خطرات سے بھی خبردار کیا ہے۔
 پروفیسر الفتح نے بتایا ہے  کہ اس صدی کے اختتام تک زیادہ درجہ حرارت اور نمی کی وجہ سے  خلیج کے کچھ حصوں میں گرمی کے دباؤ کے وہ حالات پیدا ہو جائیں گے جو انسانی بقا کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتے۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے  کہ گرمی اور ہوا میں نمی کاباعث  انسانی جسم کے لیے  زیادہ مہلک ثابت ہو سکتا ہے۔

متحدہ عرب امارات دنیا کے زیادہ  خشک ممالک میں سے ایک ہے۔ (فوٹو گلف نیوز)

سائنسدانوں کا مزید  کہنا ہے  کہ   طویل عرصے سے یہ سمجھا جا رہا تھا کہ یہ نظریاتی حد کبھی عبور نہیں ہو گی لیکن امریکی محققین نے گذشتہ  سال دو مقامات  متحدہ عرب امارات  اور پاکستان میں رپورٹ کیا ہے کہ  یہاں  درجہ حرارت یہ حد ایک سے زیادہ مرتبہ عبور ہوئی ہے۔
اقوام متحدہ کے سربراہ انتونیو گوئترس نے کہا ہے کہ  آئی پی سی سی کی رپورٹ کو کوئلے، تیل اور گیس کے لیے'موت کی گھنٹی' کے طور پر سمجھنا چاہیئے اور خبردار کیا کہ اس طرح کے ایندھن کرہ ارض کو تباہ کر رہے ہیں۔
کچھ خلیجی ریاستوں نے حالیہ برسوں میں درختوں کے پھیلاو کی مہم  اختیار کی ہے کیونکہ وہ اپنے ارد گرد کے  ماحول کو بہتر بنانے اور تیل سے ہٹ کر اپنی معیشت کو بہتر کرنےکی کوشش کر رہے ہیں۔

کوئلے، تیل اور گیس کا ایندھن کرہ ارض کو تباہ کر رہا ہے۔  (فوٹو عرب نیوز)

دبئی میں قائم  زمینی معاملات کی مشاورت کے ادارے کے منیجنگ ڈائریکٹر تنزید عالم نے بتایا ہے کہ متحدہ عرب امارات میں ماحولیات اور ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات میں دلچسپی بڑھ رہی ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ ہم نے ابھی تک کسی   بڑے کاروبار کو صحیح معنوں میں اس مسئلے کو اپنے کاروباری ماڈلز کی بنیاد بناتے ہوئے نہیں دیکھا۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ اقوام متحدہ کی رپورٹ نیند سے بیدار کرنے کی گھنٹی کے طور پر کام کرے گی۔
متحدہ عرب امارات کا مقصد 2050 تک شفاف توانائی پر اپنا انحصار 50 فیصد تک بڑھانا اور بجلی کی پیداوار کے لیے کاربن کو 70 فیصد تک کم کرنا ہے۔
ابوظہبی کا کہنا ہے کہ ہمارے یہاں دنیا کا سب سے بڑا سنگل سائٹ سولر پلانٹ  تیار کیا جا رہا ہے۔ اس منصوبے کا آغاز 2022 میں ہونا ہے۔
شمسی توانائی کا یہ منصوبہ اپنی مکمل تیاری کے بعد ملک بھر میں تقریبا  ایک لاکھ 60 ہزار گھروں کو بجلی فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
 

شیئر: