Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پنجشیر:طالبان، مخالف اتحاد میں شدید جھڑپیں،فریقین کے متضاد دعوے

افغانستان کی وادی پنجشیر میں طالبان جنگجوؤں اور مقامی لیڈر احمد مسعود کے حامیوں میں جمعرات کے روز تازہ جھڑپیں ہوئی ہیں، طالبان کے کنٹرول سے باہر اس واحد صوبے میں دونوں فریقوں نے ایک دوسرے کو بھاری نقصان پہنچانے کا دعویٰ کیا ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق 15 اگست کو کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد مقامی ملیشیا کے ہزاروں مسلح افراد اور سابق افغان فوج کی کچھ خصوصی یونٹس وادی پنجشیر میں جمع ہوگئے تھے۔
سابق افغان مجاہد لیڈر احمد شاہ مسعود کے صاحبزادے احمد مسعود اس دشوار گزار وادی میں موجود ہیں جہاں باہر سے حملہ کرنا خاصا مشکل ہوتا ہے۔
دونوں فریقوں کے درمیان تصفیے کے لیے کوششیں ناکام ہوگئی ہیں اور دونوں اطراف نے ایک دوسرے پر مذاکرات کی ناکامی کا الزام عائد کیا ہے، جبکہ طالبان حکومت کے قیام کا اعلان کرنے والے ہیں۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ ’ان کے جنگجو وادی پنجشیر میں داخل ہوگئے ہیں اور انہوں نے کچھ علاقوں پر قبضہ بھی کرلیا ہے۔‘
ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ ہم نے مقامی مسلح گروپوں کے ساتھ مذاکرات کی ناکامی کے بعد آپریشن شروع کیا اور ’انہیں بھاری نقصان پہنچایا۔‘
تاہم باغیوں کے اتحاد قومی مزاحمتی فرنٹ (نیشنل رزسٹنس فرنٹ آف افغانستان) کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ’ان کا وادی کے تمام داخلی راستوں اور گزرگاہوں پر مکمل کنٹرول ہے اور وادی کے شروع میں واقع شتل ضلع پر دوبارہ قبضے کی کوششیں شروع کر دی ہیں۔‘   

قومی مزاحمتی فرنٹ کے ترجمان نے بڑی تعداد میں طالبان جنگجوؤں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے پڑوسی صوبے پروان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’دشمن  نے جبل السراج کے ذریعے شتل میں داخل ہونے کی متعدد کوششیں کیں تاہم ہر بار ناکام رہا۔‘
قومی مزاحمتی فرنٹ کے ترجمان نے دعویٰ کیا کہ ’رواں ہفتے کے آغاز میں جھڑپیں شروع ہونے کے بعد انہوں نے دو اطراف سے بڑی تعداد میں طالبان جنگجوؤں کو ہلاک کیا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’بھاری نقصان اٹھانے کے بعد اب دوسرے فریق کو اندازہ ہوچکا ہے کہ وہ یہ مسئلہ جنگ کے ذریعے حل نہیں کرسکتا۔‘
دونوں فریقوں نے اس لڑائی میں بغیر ثبوت پیش کیے ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کے حوالے سے متضاد اعدادوشمار ظاہر کیے ہیں، ان میں سے ہر فریق کے دعوؤں کی تصدیق کرنا ممکن نہیں تھا۔
طالبان کا کہنا ہے کہ ’انہوں نے چاروں اطراف سے وادی کو گھیر رکھا ہے اور باغیوں کے لیے کامیابی حاصل کرنا ممکن نہیں ہے۔ دوسری جانب باغیوں کا کہنا ہے کہ ’وہ طالبان کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالیں گے۔‘

شیئر: