Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’سر پر دو گولیاں مار دینا‘، طالبان کو للکارنے والے امراللہ صالح اب کہاں ہیں؟

کابل پر قبضے کے بعد نائب صدر امراللہ صالح پنجشیر پہنچے تھے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
طالبان کے خلاف وادی پینجشیر میں مزاحمت کرنے والے افغانستان کے نائب صدر امراللہ صالح نے اب تک کی اپنی آخری ٹویٹ تین ستمبر کو کی تھی جس میں انہوں نے وادی سے بھاگنے کی خبروں کی تردید کی اور کہا کہ وہ اپنی مٹی کے ساتھ اور اپنی مٹی کے لیے اور اس کی عظمت کی حفاظت کے لیے وہاں موجود ہیں۔
ایک کالم میں امراللہ صالح نے لکھا کہ کابل چھوڑتے وقت انہوں نے اپنے چیف گارڈ سے کہا تھا کہ وہ ’اگر لڑائی میں زخمی ہو جائیں تو ان کے سر پر دو گولیاں مار دینا کیونکہ وہ طالبان کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالنا چاہتے۔
اب جب کہ طالبان کی طرف سے پنجشیر پر حتمی قبضے کا اعلان کر دیا گیا ہے تو امراللہ صالح کے بارے میں کچھ پتہ نہیں کہ وہ کہاں ہیں۔
گزشتہ جمعے کے بعد سے ان کے بارے میں کوئی مصدقہ اطلاع نہیں آئی کہ آیا وہ پنجشیر میں موجود ہیں یا وہاں سے کہیں اور منتقل ہو گئے ہیں۔ تاہم طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے پیر کے روز ایک پریس کانفرنس میں دعوٰی کیا کہ امراللہ صالح تاجکستان فرار ہو گئے۔ تاحال اس دعوے کی تردید یا تصدیق نہیں کی گئی۔
قبل ازیں بھی مختلف طالبان اور دیگر ذرائع سے ایسی خبریں اور ویڈیوز جاری کی گئیں تھیں جن میں کہا گیا تھا کہ امراللہ صالح فرار ہوگئے یں تاہم تین ستمبر کو ان کی طرف سے آنے والی تردید کے بعد اس کے بارے میں یقین سے کچھ کہنا ممکن نہیں رہا تھا۔
روسی نیوز ایجنسی آر آئی اے کی ایک رپورٹ کے مطابق بھی امراللہ صالح تاجکستان حکومت سے ایک ایسی جگہ کے حصول کے لیے کوشش کر رہے ہیں جہاں پر وہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کر سکیں۔
افغان امور کے ماہر اور روس کی جنگ کے بعد سے افغانستان پر رپورٹنگ کرنے والے سینیئر صحافی سجاد ترکزئی کے مطابق اب اس بات کے امکانات بہت کم ہیں کہ امراللہ صالح اس وقت پنجشیر میں موجود ہیں۔

کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد حمداللہ محب بھی افغانستان چھوڑ گئے تھے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

جس واضح طریقے سے طالبان پنجشیر پر قبضے اور امراللہ صالح کے فرار کے اعلانات کر رہے ہیں اس سے واضح ہوتا ہے کہ خطے میں ان کی پوزیشن مستحکم ہے اور امراللہ صالح فی الحال منظر عام پر نہیں ہیں۔
سجاد ترکزئی کے مطابق ’اشرف غنی کے فرار کے وقت بھی صورتحال اسی طرح مبہم تھی۔ اور جب تک انہوں نے دبئی پہنچ کر اپنے فرار کی تصدیق نہیں کی، ان کے بارے میں متضاد اطلاعات آتی رہیں۔
اسی طرح ممکن ہے کہ امراللہ صالح بھی جلد اپنی قیام گاہ کے بارے میں اعلان کریں اور اپنی مستقبل کی حکمت عملی سے آگاہ کریں۔‘ 
سینیئر صحافی اعزاز سید جنہوں نے کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد وہاں سے براہ راست کوریج کی، بتاتے ہیں کہ امراللہ صالح کم و بیش تین روز پہلے ہی افغانستان چھوڑ کر تاجکستان فرار ہوگئے تھے۔
جب انہوں نے تین ستمبر کو اپنی پنجشیر میں موجودگی کا اعلان کیا، وہ اس وقت بھی وہاں موجود نہیں تھے.اس سے چند روز پہلے وہاں سے دو ہیلی کاپٹر اڑے تھے، اور ایک ہیلی کاپٹر میں امراللہ صالح موجود تھے۔
اعزازسید کے مطابق اشرف غنی اور حمداللہ محب کے ساتھ امراللہ صالح تیسرے شخص تھے جن سے طالبان شدید نفرت کرتے تھے۔
  ’ان کے علم میں تھا کہ اگر طالبان کے قبضے کے وقت وہ وہاں موجود ہوتے تو ان کے ساتھ بھی وہی ہونا تھا جو نجیب کے ساتھ ہوا۔

کابل کے سقوط کے بعد صدر اشرف غنی متحدہ عرب امارات پہنچ گئے تھے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

امراللہ صالح کون ہیں؟

15 اگست کو اشرف غنی کے فرار کے بعد خود کو افغانستان کا قائم مقام صدر مقرر کرنے والے امراللہ صالح طالبان کے کٹر مخالف ہیں اور اکثر وبیشتر طالبان اور پاکستان کے خلاف تند و تیز بیانات جاری کرتے رہتے ہیں۔
امراللہ صالح 15 اگست تک اشرف غنی حکومت کے نائب صدر تھے۔ اس سے قبل وہ افغانستان کے وزیر داخلہ اور خفیہ ایجنسی نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سکیورٹی (ڈی این ایس) کے سربراہ بھی رہے۔
تاجک النسل صالح قبل ازیں افغانستان کے شمالی اتحاد کے زیر سایہ روسی حمایت یافتہ افغان فوج اور طالبان کے خلاف بھی برسر پیکار رہے۔
انہوں نے 1997 کے بعد تاجکستان میں افغانستان کے سفارتخانے میں بطور بین الاقوامی رابطہ کار خدمات انجام دیں۔ 11 ستمبر کو امریکہ میں ہونے والے حملوں کے بعد انہوں نے کابل میں طالبان حکومت گرانے کے لیے اہم کردار ادا کیا۔

شیئر: