Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بنگلہ دیش: کارٹونسٹ اور صحافیوں پر متنازع انٹرنیٹ قانون کے تحت مقدمات

کارٹونسٹ احمد کبیر کشور کو مئی میں بھی گرفتار کیا گیا تھا (فوٹو اے ایف پی)
بنگلہ دیش کے ایک معروف کارٹونسٹ اور سویڈن میں رہنے والا ایک صحافی ان سات افراد میں شامل ہیں جن کے خلاف متنازع انٹرنیٹ قانون کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق ماہرین کا کہنا ہے کہ اس قانون کا مقصد حکومتی مخالفین کو خاموش کروانا ہے۔
وکیل نور اسلام شمیم کے مطابق بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ کی ایک عدالت نے ’ڈیجیٹل سکیورٹی ایکٹ‘ کے تحت کارٹونسٹ احمد کبیر کشور اور سماجی کارکن و صحافی تسنیم خلیل پر فرد جرم عائد کیا  کیا۔
ان پر الزام ہے کہ انہوں نے غلط معلومات شائع کیں، ہتک عزت کے مرتکب ہوئے اور جان بوجھ کر ایسا ڈیجیٹل مواد شائع کیا جس سے امن عامہ کے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔
اگر جرم ثابت ہو گیا تو انہیں 10 برس قید ہو سکتی ہے۔
عدالت نے دیگر چار مفرور ملزمان کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے کہا ہے کہ یہ قانون حکومت کے مخالفین کو ڈرانے اور خاموش کروانے کے لیے ہے۔
کارٹونسٹ احمد کبیر کشور کا کہنا ہے کہ وہ ’ناانصافی کا شکار‘ ہوئے ہیں۔ ’کارٹون بنانا جرم نہیں ہے۔‘
کارٹونسٹ احمد کبیر کشور کو مئی میں بھی گرفتار کیا گیا تھا اور پھر احتجاجی مظاہروں کے بعد انہیں مارچ میں ضمانت پر رہا کر دیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ پولیس نے گرفتار کرنے سے پہلے ان پر تشدد کیا تھا۔
انہوں نے پولیس ٹارچر کے خلاف عدالت میں ایک پٹیشن بھی دائر کی جس کی پولیس نے تردید کی۔ ابھی تک اس پٹیشن پر کوئی فیصلہ نہیں دیا گیا۔
کارٹونسٹ نے کہا کہ ان پر تشدد کرنے والوں نے حکومت کے قریبی کاروباری شخص اور کورونا وائرس کے حوالے سے حکومتی اقدامات پر مبنی کارٹون سیریز کے بارے میں سوالات پوچھے۔
جولائی میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا تھا کہ بنگلہ دیش نے انٹرنیٹ قانون کے تحت 433 افراد کو گرفتار کیا۔

شیئر: