Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’یہ حقیقی افغان کلچر ہے جسے طالبان چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں‘

طالبان کی صنفی پالیسیوں کے خلاف مہم میں روایتی لباس میں ملبوس خواتین کو دکھایا جاتا رہا (فوٹو: سوزانا سٹاریکوو، ٹوئٹر)
افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کے بعد خواتین کو مخلوط تقریبات سے روکے جانے اور لباس کے ساتھ پردے کی پابندی کے معاملات پر احتجاج کرنے والی کچھ خواتین ٹوئٹر پر روایتی افغان لباس کی تصاویر شیئر کرتے ہوئے ایک مہم چلا رہی ہیں۔
کابل کی ایک تاریخ دان ڈاکٹر بہار جلالئی کی جانب سے افغان خواتین کے ثقافتی لباس سے متعلق یہ مہم ایک ایسے وقت میں شروع کی گئی جب چند روز قبل کابل یونیورسٹی میں سینکڑوں باحجاب خواتین نے طالبان کی جانب سے صنفی معاملات پر اختیار کردہ پالیسیوں کی حمایت میں ایک پروگرام منعقد کیا تھا۔
ڈاکٹر بہار جلالئی کی ٹوئٹر مہم میں جہاں خود کو افغان خاتون کے طور پر متعارف کرانے والے ہینڈلز نے روایتی قبائلی طرز کے لباس میں تصاویر شیئر کیں وہیں غیر افغان صارفین کی جانب سے بھی مختلف تصاویر اور سلوگنز کے ذریعے اس میں شرکت کی۔

ابتدائی ٹویٹ پر ردعمل دینے والی خواتین ٹویپس نے اپنی تصاویر شیئر کرتے ہوئے ان میں دکھائی دینے والے لباس کو ’روایتی افغان لباس‘ یا ’افغان ثقافتی لباس‘ قرار دیا وہیں پردے کو افغان لباس کا حصہ ماننے سے انکار کیا۔
مینا ذکی نامی ایک ہینڈل نے لباس سے متعلق مہم میں ایکٹو ہینڈلز کو مینشن کرتے ہوئے ایک تصویر شیئر کی تو اسے ’روایتی افغان لباس‘ قرار دیا اور چہرہ ڈھانپے ہوئے ایک ایموجی شیئر کرتے ہوئے اس کے متعلق کہا کہ یہ افغان لباس نہیں ہے۔

خود کو جرمن بتانے والی سوزانا سٹاریکوو نامی ہینڈل نے روایتی کڑھائی سے مزید لباس زیب تن کیے کچھ خواتین کی تصاویر شیئر کی تو ٹوئٹر پر جاری مہم کا پس منظر بھی وضاحت سے بیان کیا۔

تمنا ناصر نامی ٹویپ نے کم سن بچیوں کی ایک تصویر شیئر کی جس میں انہیں قبائلی انداز کا روایتی لباس پہنے دکھایا گیا ہے اور ساتھ لکھا کہ ’یہ حقیقی افغان کلچر ہے جسے طالبان چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘

برطانیہ میں پہلی افغان خاتون لیبر کونسلر منتخب ہونے والی پیمانہ اسد مہم کا حصہ بنیں تو طالبان کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے ایک تصویر شیئر کی اور اسے ’افغان ثقافت‘ قرار دیا۔

ایک انڈین ٹوئٹر صارف نے کابل یونیورسٹی میں طالبان کی حمایت میں پروگرام منعقد کرنے والی باحجاب خواتین کی تصویر کے ساتھ روایتی قبائلی لباس زیب تن کیے دو خواتین کی تصویر شیئر کی۔
اپنے تبصرے میں انڈین صارف کا کہنا تھا کہ ’بچپن کی رنگین یادوں میں چمکنے والے افغانستان کو طالبان اور پاکستان کی مدد سے اندھیرے میں دھکیلا جا رہا ہے جو قابل قبول نہیں ہے۔‘

گزشتہ ماہ کے وسط میں کابل کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد طالبان نے جہاں عبوری حکومت کا اعلان کیا ہے وہیں اپنے مخالفین کے لیے عام معافی کا اعلان کرتے ہوئے مختلف شعبہ ہائے زندگی کے لیے اپنی پالیسیوں کا اعلان بھی کیا ہے۔
طالبان حکومت کی خواتین سے متعلق پالیسیوں کے حوالے سے ملک کے مختلف حصوں میں خواتین کی جانب سے احتجاج بھی کیا گیا جب کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بھی بیرون ملک مقیم افغان یا غیر افغان ہینڈلز کی جانب سے تنقید کی جاتی رہی ہے۔

شیئر: