Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

طالبان کی کابینہ میں توسیع، عالمی تشویش کے باوجود خواتین پھر نظرانداز

طالبان نے اپنی کابینہ کو وسعت دیتے ہوئے اس میں نائب وزیر بھی شامل کیے ہیں تاہم ان میں ایک بھی خاتون شامل نہیں ہے۔
اے ایف پی کے مطابق منگل کو کابل میں پریس کانفرنس میں طالبان کے نائب وزیر اطلاعات ذبیح اللہ مجاہد نے عبوری افغان کابینہ کے باقی ناموں کا اعلان کیا۔
رواں ماہ کے آغاز میں جب طالبان کی ابتدائی کابینہ سامنے آئی تو اس میں تمام مرد شامل تھے جس پر بین الاقوامی برادری کی جانب سے تشویش کا اظہار کیا گیا تھا لیکن اس کے باوجود بھی خواتین کو کابینہ کا حصہ نہیں بنایا گیا ہے۔
 بین الاقوامی برادری نے طالبان کو خبردار کیا ہے کہ وہ ان کے بارے میں رائے ان کے اعمال کے حساب سے بنے گی اور طالبان حکومت کو تسلیم کیے جانے کا معاملہ خواتین اور اقلیتوں کے ساتھ ہونے والے سلوک سے جڑا ہو گا۔
نوے کی دہائی میں اپنے پچھلے دور حکومت میں طالبان نے لڑکیوں کے سکول جانے اور خواتین کے کام کرنے پر پابندی لگا دی تھی۔
طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کابینہ میں توسیع کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ’اس میں تمام اقوام اور اقلیتوں کو نمائندگی دی گئی ہے جبکہ خواتین کو بعد میں شامل کیا جائے گا۔‘

’لڑکیوں کو سکول جانے کی اجازت جتنی جلدی ممکن ہوا دے دی جائے گی‘

 طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا مزید کہنا تھا کہ ’لڑکیوں کی سکولوں کو واپسی کے حوالے سے معاملات کو حتمی شکل دی جا رہی ہے اور جتنی جلدی ممکن ہوا، ایسا کر دیا جائے گا۔‘
ان کے مطابق اس سے قبل سیکھنے کا ایک محفوظ ماحول بنانے کی ضرورت ہے۔
طالبان ترجمان نے خواتین امور کی وزارت، جو بند کر دی گئی تھی، کے حوالے سے کچھ نہیں کہا جبکہ کسی خاتون وزیر لائے جانے کا ذکر بھی نہیں کیا۔
اس وقت طالبان حکومت کو ملک چلانے کے لیے ایک بھاری بھرکم ہدف کا سامنا ہے۔
افغانستان کے ایک ایسے ملک کے طور پر جس کا دارومدار امداد پر رہا ہے، اس کی مشکلات طالبان کی آمد کے بعد بڑھی ہیں کیونکہ بیرونی فنڈنگ منجمد ہوئی ہے۔

گذشتہ دو دہائیوں میں سکولوں میں لڑکیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا تھا (فائل فوٹو: اے ایف پی)

بہت سے حکومتی ملازمین کو کئی ماہ سے تنخواہیں نہیں دی گئیں جبکہ اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں بھی بہت اضافہ ہوا ہے۔
ذبیح اللہ مجاہد کے بقول ’ان کے پاس فنڈز موجود ہیں، تاہم کام کے معاملات بہتر ہونے میں وقت لگے گا۔‘
طالبان نے خواتین کی کام کاج تک رسائی کو کم کر دیا ہے۔ طالبان عہدیداروں کی جانب سے اس حوالے سے کہا گیا ہے کہ خواتین اپنی حفاظت کے لیے تب تک گھروں پر رہیں جب تک گروہ کی شرعی قوانین کی تشریح کے مطابق قانون نافذ نہیں ہو جاتا۔
دوسری طرف ملک کے نئے حکمرانوں نے خواتین کے کام پر پابندی کے حوالے سے بھی کوئی باقاعدہ پالیسی جاری نہیں کی جبکہ عہدیداروں کی جانب انفرادی طور پر خواتین کو کام کاج سے الگ کر دیا گیا ہے۔
کابل کے قائم مقام میئر کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ میونسپل کی ایسی ملازمتیں جن پر خواتین کام کر رہی تھیں، اب وہاں مرد کام کریں گے۔

افغانستان  میں تعلیم کے لیے زیادہ تر بجٹ غیر ملکی امدادی ادارے فراہم کرتے تھے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

پچھلے بیس سال میں خواتین اپنے بنیادی حقوق کے لیے لڑتی رہیں اور قانون ساز، ججز، پائلٹس اور دیگر بڑے عہدوں تک پہنچیں تاہم ایسی خواتین زیادہ تر بڑے شہروں تک محدود ہیں۔
امریکی حمایت یافتہ حکومت کے دور میں ہزاروں کی تعداد میں خواتین ملازمتوں کی طرف آئیں اور کئی خواتین اپنے خاندانوں کی کفیل بنیں۔
طالبان 1996 سے 2001 تک کے دور میں سخت گیر رویہ اپنائے جانے کے لیے بدنام رہے ہیں اور بڑی تعداد میں خواتین کو کام کرنے کے ساتھ ساتھ لڑکیوں کو سکول جانے سے بھی روک دیا گیا تھا، اور مرد رشتہ دار کے بغیر ان کے گھر سے نکلنے پر بھی پابندی عائد کی گئی تھی۔

شیئر: