Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’عوام کی خاطر موجودہ افغان حکومت کو مستحکم کیا جائے‘

پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے دنیا کو افغانستان میں منڈلاتے ہوئے بڑ ے انسانی بحران سے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ غیر مستحکم، افراتفری کا شکار افغانستان ایک بار پھر بین الاقوامی دہشت گردوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ بن سکتا ہے لہٰذا آگے بڑھنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ افغانستان کے لوگوں کی خاطر موجودہ افغان حکومت کو مضبوط اور مستحکم کیا جائے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے ورچول خطاب میں عمران خان کا کہنا تھا کہ ترقی پذیر ممالک میں کرپٹ حکمران اشرافیہ کی لوٹ مار کی وجہ سے امیر اور غریب ممالک کے درمیان فرق خطرناک رفتار سے بڑھ رہا ہے، خدشہ ہے کہ غربت کے سمندر میں چند امیر جزائر بھی موسمیاتی تبدیلی جیسی عالمی آفت کی شکل اختیار کرسکتے ہیں۔
پاکستان کے وزیراعظم نے کہا کہ اسلاموفوبیا کے خطرناک رحجان کو مل کر روکنے کی ضرورت ہے، ’اس وقت اسلامو فوبیا کی بدترین اور نہایت سرایت پذیر شکل کا انڈیا پر راج ہے، اسلامو فوبیا میں اضافے کو روکنے کے لیے عالمی مکالمے کا اہتمام کیا جائے، مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کے گھناؤنے اقدامات جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے مترادف ہیں۔‘ 
جمعے کی شب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 76ویں اجلاس سے ویڈیو خطاب میں عمران خان نے افغانستان کی صورتحال، تنازع کشمیر، اسلامو فوبیا، انڈیا کی جانب سے انسانی حقوق کی وسیع پیمانے پر خلاف ورزیوں، موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجز، بدعنوانی کے مضمرات، کووڈ وبا کے اثرات سمیت متعدد موضوعات پر تفصیلی اظہار خیال کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کا انحصار اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق جموں و کشمیر کے تنازعے کے حل پر منحصر ہے، کووڈ وبا، اقتصادی مندی اور موسمیاتی تبدیلی کے سہ جہتی بحران سے نبرد آزما ہونے کے لیے ایک جامع حکمت عملی درکار ہے۔
افغانستان کی صورتحال پر مؤقف
وزیراعظم نے کہا کہ افغانستان کی موجودہ صورتحال کے لیے کسی وجہ سے امریکہ میں سیاستدانوں اور یورپ کے بعض سیاستدانوں نے پاکستان کو ان واقعات کے لیے مورد الزام ٹھہرایا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’اس پلیٹ فارم سے میں ان سب کو بتانا چاہتا ہوں کہ نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں جب ہم شامل ہوئے تو افغانستان کے علاوہ جس ملک نے سب سے زیادہ نقصان اٹھایا وہ پاکستان ہے۔‘

عمران خان نے کہا کہ امریکی صدر رونالڈ ریگن نے 1983 میں افغان مجاہدین کو وائٹ ہاؤس میں مدعو کیا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

عمران خان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے جانی و مالی نقصان کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ 80 ہزار پاکستانی جاں بحق ہوئے ہیں، ’ہماری معیشت کو 150 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔35 لاکھ پاکستانی عارضی طور پر بے گھر ہوئے اور ایسا کیوں ہوا؟ 1980 ء کے عشرے میں پاکستان افغانستان پر قبضے کے خلاف لڑائی میں فرنٹ لائٹ سٹیٹ تھا۔‘
’پاکستان اور امریکہ نے افغانستان کی آزادی کی جنگ لڑنے کے لیے مجاہدین گروپوں کو تربیت دی۔ ان مجاہدین گروپوں میں القاعدہ اور دنیا بھر سے مختلف گروپس شامل تھے، وہ مجاہدین تھے، افغان مجاہدین، ان کو ہیرو تصور کیا گیا۔‘
وزیراعظم نے یاد دلایا کہ امریکی صدر رونالڈ ریگن نے 1983 میں ان مجاہدین کو وائٹ ہاؤس میں مدعو کیا اور ایک خبر کے مطابق انہوں نے ان کا امریکہ کے بانیان کے ساتھ تقابل کیا، وہ ہیروز تھے۔ 
عمران خان نے کہا کہ 1989 میں سوویت یونین کی افواج افغانستان سے واپس گئیں اور اس کے بعد امریکہ نے بھی افغانستان کو چھوڑ دیا۔ پاکستان کو 50 لاکھ افغان مہاجرین کا بوجھ اٹھانا پڑا۔ ہمیں فرقہ وارانہ مسلح گروہوں کے ساتھ چھوڑ دیا گیا جن کا اس سے پہلے کبھی وجود نہیں تھا۔
’لیکن بدترین وقت وہ تھا جب ایک سال بعد پاکستان پر امریکہ نے پابندیاں لگا دیں، ایسا محسوس ہوا کہ ہمیں استعمال کیا گیا۔‘
وزیراعظم نے کہا کہ نائن الیون کے فوری بعد امریکہ کو ایک بار پھر پاکستان کی ضرورت پیش آئی کیونکہ اب امریکہ کی قیادت میں اتحاد افغانستان پر حملہ آور ہو رہا تھا اور یہ پاکستان کی لاجسٹک سپورٹ کے بغیر ممکن نہیں تھا۔

پاکستان کے وزیراعظم نے جنرل اسمبلی سے خطاب میں انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کی صورتحال پر تفصیلی بات کی۔ فوٹو: اے ایف پی

’اس کے بعد کیا ہوا؟ وہی مجاہدین جنہیں ہم نے تربیت دی تھی کہ غیر ملکی قبضے کے خلاف جنگ ایک مقدس فریضہ، مقدس جنگ یا جہاد ہے، ہمارے خلاف ہو گئے، ہمیں شراکت دار کہا جانے لگا، انہوں نے ہمارے خلاف جہاد کا اعلان کر دیا۔‘ 
اسلاموفوبیا اور انڈیا پر تنقید
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ کچھ حلقوں کی جانب سے دہشت گردی کو اسلام سے جوڑا جاتا رہا ہے جس کے سبب انتہا پسند اور دہشت گرد گروہ مسلمانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ 
عمران خان نے انڈیا کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ دنیا میں 'اسلامو فوبیا کی سب سے خوفناک اور بھیانک شکل' انڈیا میں ہے۔ 
وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان انڈیا کے ساتھ بھی تمام ہمسایہ ممالک کی طرح امن چاہتا ہے لیکن جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کا انحصار اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق جموں و کشمیر کے تنازعے کے حل پر منحصر ہے۔
انہوں نے کہا کہ گذشتہ سال فروری میں ہم نے کنٹرول لائن پر2003 ء کی جنگ بندی کی مفاہمت کا اعادہ کیا۔ ’امید تھی کہ یہ نئی دہلی میں حکمت عملی پر نظرثانی کا باعث ہو گی۔ افسوس بی جے پی حکومت نے کشمیر میں ظالمانہ ہتھکنڈے تیز کر دیے اور ان وحشیانہ کارروائیوں سے ماحول کو خراب کر رہی ہے۔‘
بدعنوانی اور منی لانڈرنگ پر مؤقف
وزیراعظم عمران خان نے بدعنوانی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ترقی پذیر دنیا میں ان کی کرپٹ حکمران اشرافیہ کی جانب سے لوٹ مار کی وجہ سے امیر اور غریب ممالک کے درمیان فرق خطرناک رفتار سے بڑھ رہا ہے۔
انہوں نے دنیا کی توجہ ترقی پذیر ممالک سے ناجائز سرمائے کے بہاؤکی لعنت کی طرف مبذول کرائے جانے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مالیاتی احتساب، شفافیت اور سالمیت (ایف اے سی ٹی آئی) کے بارے میں سیکرٹری جنرل کے اعلیٰ سطح کے پینل نے تخمینہ لگایا ہے کہ سات ٹریلین ڈالرکے چوری شدہ اثاثہ جات مالیاتی ’محفوظ ٹھکانوں‘ میں جمع ہیں۔

پاکستان کے وزیراعظم نے منی لانڈرنگ کے ذریعے غریب ملکوں کی دولت متمول ملکوں میں چھپانے کی جانب توجہ دلائی۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

عمران خان نے کہا کہ یہ منظم چوری اور اثاثہ جات کی غیر قانونی منتقلی ترقی پذیر اقوام پر گہرے منفی اثرات کی حامل ہے، یہ ان کے پہلے سے محدود وسائل کو ختم کرتی ہے، غربت کی سطح کو مزید گھمبیر بناتی ہے بالخصوص منی لانڈرنگ، کرنسی پر دباؤ ڈالتی ہے اور اس کی قدر میں کمی کا باعث بنتی ہے، موجودہ شرح پر جب ایف اے سی ٹی آئی پینل نے تخمینہ لگایا ہے کہ ایک ٹریلین ڈالر سالانہ ترقی پذیر دنیا سے باہر نکالا جاتا ہے تو امیر اقوام کی طرف بڑے پیمانے پر اقتصادی تارکین وطن کا خروج ہو گا۔
عمران خان نے کہا کہ ترقی پذیر ممالک سے چرائے گئے اثاثہ جات کو واپس لینا غریب اقوام کے لیے ناممکن ہے۔ متمول ممالک کو یہ ناجائز دولت واپس کرنے میں مجبوری نہیں اور یہ ناجائز ذرائع سے جمع کی گئی دولت ترقی پذیر ممالک کے عوام سے تعلق رکھتی ہے۔
’میں سمجھتا ہوں کہ بعید نہیں، ایک وقت آئے گا جب امیر ممالک کو ان غریب ممالک سے معاشی تارکین وطن کو روکنے کے لیے دیواریں کھڑی کرنے پر مجبور ہوں گے۔‘

شیئر: