Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

طالبان کے سیاسی ایجنڈے کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟

یہ چیز دیکھنا باقی ہے کہ طالبان سرکاری ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے فنڈز کا بندوبست کیسے کریں گے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
افغانستان میں برق رفتاری سے پیش قدمی کر کے کابل کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد طالبان کو اختیارات ہاتھ میں لیے ایک ماہ ہو گیا ہے۔ اس دوران جنگجو گروپ نے اپنی عبوری کابینہ بھی تشکیل دے دی تاہم ان کا سیاسی ایجنڈا تاحال واضح نہیں ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق طالبان کی جانب سے ایجنڈا واضح نہ ہونے کی وجہ سے افغان شہریوں اور عالمی برادری میں تشویش پیدا ہو رہی ہے کہ کیا ماضی میں سنہ 1996 سے سنہ 2001 تک افغانستان میں سخت قوانین نافذ کیے جانے کا تجربہ دوبارہ ہو گا۔
ہر چند کہ بہت سی چیزیں مبہم ہیں تاہم اب تک سامنے آنے والے طالبان کے سیاسی پروگرام کے کچھ نکات یوں ہیں۔
طالبان کی جس پالیسی کا ہر ایک کو انتظار ہے وہ خواتین کے بارے میں ہے۔
طالبان کی قیادت میں کوئی خاتون شامل نہیں اور دنیا اس حوالے سے انتظار کر رہی ہے کہ ماضی میں خواتین پر پابندیاں عائد کرنے والے حالیہ عرصہ اقتدار میں کیا روش اختیار کریں گے۔
خواتین کے حوالے سے طالبان کی پالیسی پر ہی افغانستان کی بیرونی امداد خاص طور پر مغربی ملکوں سے ملنے والی امداد کی بحالی کا دار ومدار ہے۔
گزشتہ ماہ 15 اگست کو کابل پر قبضے کے بعد سے طالبان رہنما مسلسل یہ بیانات دیتے آ رہے ہیں کہ وہ اسلامی قوانین یا شریعت کے مطابق خواتین کے حقوق کا احترام کریں گے تاہم اس حوالے سے زیادہ تفصیل نہیں بتاتے۔
ماضی میں طالبان نے اپنے اقتدار کے دوران خواتین اور لڑکیوں پر مکمل پردہ کرنے کی کڑی شرائط عائد کی تھیں اور ان کو غیرمعمولی حالات کے سوا کوئی کام کرنے کی اجازت نہیں تھی۔
اس بار طالبان نے ’نئے نظام‘ کے آنے تک خواتین کو کام پر نہ آںے کے لیے کہا ہے جبکہ زیادہ تر خواتین خوف کے باعث گھروں تک محدود ہیں۔
طالبات کو پرائمری سکول جانے کی اجازت دی گئی ہے تاہم سیکنڈری سکول ایجوکیشن کے حوالے سے ابھی تک طالبان نے لڑکیوں کے لیے واضح اعلان نہیں کیا۔
طالبان نے کہا ہے کہ موجودہ اقدامات عارضی ہیں تاہم بہت سے افغان طالبان رہنماؤں کے بیانات کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
افغانستان کی نجی یونیورسٹی میں طالبات کو تعلیم جاری رکھنے کی اجازت دی گئی لیکن ان پر کڑی شرائط عائد ہیں جن میں سے لباس کا چناؤ اور مخلوط کلاسز پر پابندی ہے۔
اقتدار پر قبضے کے بعد طالبان نے کہا تھا کہ خواتین سمیت تمام صحافی اپنا کام جاری رکھ سکتے ہیں۔

تاحال طالبان نے انٹرٹیمنٹ اور کلچر کے حوالے سے اپنی سرکاری پالیسی کا اعلان نہیں کیا۔ فوٹو: اے ایف پی

طالبان کے ترجمان نے رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز (آر ایس ایف) سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’ہم آزادی صحافت کا احترام کریں گے کیونکہ میڈیا کی رپورٹنگ معاشرے کے لیے مفید ہے اور اس سے قیادت کو اپنی غلطیاں درست کرنے میں بھی مدد ملتی ہے۔‘
آر ایس ایف کے مطابق ایک ماہ بعد طالبان کے لہجے میں تبدیلی آئی ہے اور اب انہوں نے افغان صحافیوں کے لیے گیارہ قواعد جاری کیے ہیں جن پر عمل کرنا لازمی قرار دیا گیا ہے۔
ان شرائط میں سے ایک ایسے مواد کی نشر و اشاعت پر پابندی ہے جو ’اسلامی تعلیمات کے منافی‘ ہو، یا جو ’عوامی شخصیات کی توہین‘ پر مبنی ہو۔
آر ایس ایف کا کہنا ہے کہ یہ قواعد صحافیوں کے خلاف کارروائی کے لیے استعمال کیے جا سکتے ہیں اور ان کے ذریعے سنسرشپ کا دروازہ کھلا رکھا گیا ہے۔
طالبان کی جانب سے نئے قواعد یا گائیڈ لائنز کے اجرا سے قبل ہی بہت سے صحافی افغانستان چھوڑ کر چلے گئے۔ وہ جو ملک چھوڑ نہیں پائے انہوں نے خود کو گھروں تک محدود کر لیا ہے اس خوف سے کہ ان کے خلاف تادیبی کارروائی نہ کر دی جائے۔
حال ہی میں طالبان کے خلاف خواتین کے مظاہروں کی کوریج کرنے والے بعض صحافیوں کو مختصر وقت کے لیے حراست میں لیا گیا یا تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

اقتدار پر قبضے کے بعد طالبان نے کہا تھا کہ خواتین سمیت تمام صحافی اپنا کام جاری رکھ سکتے ہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

اپنے پہلے عرصہ اقتدار میں طالبان اسلامی شرعی قوانین کی اپنی سخت تشریح اور نفاذ کے لیے بدنام ہوئے تھے جن انہوں نے موسیقی، فوٹوگرافی، ٹیلی وژن اور یہاں تک کہ بچوں کے پتنگ اڑانے پر بھی پابندی عائد کی تھی۔
طالبان نے بامیان کے علاقے میں بدھا کے تاریخی مجسموں کو بارود سے اڑا دیا تھا۔
گزشتہ ماہ اقتدار میں آنے کے بعد تاحال طالبان نے انٹرٹیمنٹ اور کلچر کے حوالے سے اپنی سرکاری پالیسی کا اعلان نہیں کیا۔ گزشتہ ماہ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے نیویارک ٹائمز کو بتایا کہ ’اسلام میں موسیقی حرام ہے۔‘
کابل میں میوزک کے سکول بند کر دیے گئے جبکہ کئی فنکاروں اور سازندوں نے اپنے آلات کو ضائع کر دیا۔
طالبان کو افغانستان میں معاشی بحران کا سامنا ہے۔ کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد بین الاقوامی امدادی اداروں نے اپنا کام روک دیا جبکہ معیشت جمود کا شکار ہو گئی۔ طالبان کا معاشی پروگرام نہایت مبہم ہے۔ طالبان کے ترجمان نے گزشتہ دنوں کہا کہ ’ہم اپنے قدرتی وسائل پر کام کرنے لگے ہیں اور اپنے وسائل سے معیشت کو رواں کریں گے۔‘
تاحال یہ چیز دیکھنا باقی ہے کہ طالبان سرکاری ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے فنڈز کا بندوبست کیسے کریں گے۔ اسی طرح بجلی ترسیل کے نظام، پانی کی سپلائی اور ٹیلی کمیونیکیشن کو برقرار رکھنے کے لیے رقم کہاں سے آئے گی۔
معاشی بحران کے دوران جب شہریوں کو بنیادی ضرورت کی اشیا کی خریداری میں مشکلات کا سامنا ہے طالبان نے بدعنوانی کے خلاف سخت اقدامات کا اعلان کیا۔

عالمی امدادی اداریوں کی جانب سے کام روکنے اور امریکی بینکوں میں پڑے اربوں ڈالر منجمد کیے جانے کے بعد افغانستان کو معاشی بحران کا سامنا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

خیال رہے کہ ملک چھوڑ کر جانے والے افغانستان کے سابق صدر اشرف غنی کی حکومت میں شامل افراد پر کرپشن کے سنگین الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں۔
اے ایف پی کے مطابق زیادہ تر افغان شہریوں کا کہنا ہے کہ طالبان کے اقتدار پر قبضے اور ملک سے جنگ کے خاتمے پر وہ کو پہلے سے زیادہ محفوظ تصور کرتے ہیں۔
لیکن طالبان اپنی مخالفت کو زیادہ دیر برداشت نہیں کرتے، خواتین کی جانب سے کابل میں کیے گئے مظاہروں کو ہوائی فائرنگ سے روکنے کی کوشش کی گئی اور بعد ازاں ہر قسم کے احتجاج پر پابندی عائد کر دی گئی۔

شیئر: