Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قندھار میں دریا کنارے نوجوان طالبان کا گیتوں کی دھن پر رقص

دریائے ارغنداب کے کنارے طالبان جنگجو اتنڑ رقص کر رہے تھے۔ فوٹو اے ایف پی
جیسے ہی ڈوبتے سورج کی کرنیں دریائے ارغنداب پر پڑیں تو قریب کھڑے طالبان جنگجوؤں نے دریا کا رخ کیا اور اپنے روایتی گیتوں کی دھن پر رقص کرنا شروع کر دیا۔ یہ منظر شاید 20 سال پہلے قابل تصور بھی نہ ہو جب طالبان پہلی مرتبہ اقتدار میں آئے تھے۔
رقص کرنے والے ایک نوجوان طالب حافظ مدثر نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’یہ گیت ہمارا ہے، یہ ہمارے ملک کا ہے۔‘ اس گیت کے الفاظ کچھ یوں تھے ’میری طرف سے کابل کو سلام کہنا، مجھے یاد آتا ہے۔‘
صرف ایک ماہ پہلے ہی صوبہ قندھار سے گزرنے والے دریائے ارغنداب کے کنارے پر طالبان اور حکومتی فوج کے درمیان جھڑپیں جاری تھیں۔اور اب وہاں طالبان قومی گیت کی دھن پر رقص کر رہے تھے۔
طالبان کے 1996 سے 2001 تک کے دور اقتدار میں گائیکی، رقص سمیت ہر قسم کی تفریح پر پابندی عائد تھی۔ لیکن یہ نوجوان طالبان موسیقی سنتے ہیں چاہے مذہبی ہی کیوں نہ ہو۔
دریائے ارغنداب کے کنارے بیٹھے یہ نوجوان طالبان کچھ سکون کے لمحات گزارنے یہاں آئے تھے۔ یہ سب اس بات پر بھی پرجوش تھے کہ 20 سال بعد انہوں نے امریکہ کو شکست دی ہے۔
ان میں سے ایک طالب حافظ مدثر کا کہنا تھا کہ ’ہم کچھ برا نہیں کر رہے۔ ہمارے دشمن غلط خبریں پھیلا رہے ہیں کہ ہم لوگوں کو مار رہے ہیں۔‘
لیکن افغانستان میں اکثر لوگوں کو طالبان پر اعتماد نہیں ہے۔ انہیں خوف ہے کہ طالبان 1990 کی دہائی والے سخت اقدامات ایک مرتبہ لاگو کریں گے۔

طالبان کا کہنا ہے کہ جنگ میں سب سے بھاری قیمت انہوں نے ادا کی ہے۔ فوٹو اے ایف پی

جیسے جیسے سورج ڈھلتا گیا تو 20 کے قریب طالبان کا ایک گروپ دریا کے کنارے بیٹھے اپنے ساتھیوں کی محفل میں شریک ہوا۔ مغرب کا وقت ہوا تو سب نے مل کر نماز ادا کی اور اس کے بعد کھانا کھایا۔
حافظ مدثر نے لڑائی کے دوران عام شہریوں کے ہلاک ہونے کے حوالے سے کہا کہ خطے میں اسلام پھیلانے کی قیمت طالبان نے ادا کی ہے۔
’اور اگر کوئی معصوم ہلاک ہو بھی جاتا ہے، تو اسے اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کیونکہ شہادت حاصل کرنا اچھی بات ہے۔‘

شیئر: