Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سکھر میں کئی من وزنی تاریخی گھنٹہ کیسے چوری ہوا؟

دریائے سندھ کے کنارے واقع سکھر شہر میں انگریزوں کی جانب سے نصب کیا جانے والا کئی من وزنی گھنٹہ چوری ہونے کے بعد ابھی تک نہیں مل سکا ہے۔
حکام کے مطابق گھنٹہ میونسپل کارپوریشن کے دفتر سے چند روز قبل چوری ہوا تھا اور واقعے کا مقدمہ درج کر کے میونسپلٹی ملازمین سے پوچھ گچھ جاری ہے۔
انگریز دورِحکومت میں سکھر میں 1856 میں میونسپلٹی قائم کی گئی۔ اس دور میں علاقہ کے عمائدین کو میونسپلٹی کمیٹی کا رکن منتخب کیا جاتا تھا جبکہ صدارت کلیکٹر کے پاس ہوتی تھی۔
1884 میں ضلع سکھر کا قیام عمل میں لایا گیا اور شہریوں کو سسٹم چلانے کے لیے اس کا رکن منتخب کرنے کا حق دیا گیا۔ 
دریائے سندھ کے کنارے اور تین صوبوں کے سنگم پر واقع سکھر شہر اس دور میں بھی اہم تجارتی مرکز تھا۔ یہاں کے کارخانوں میں بنے والی اشیا کی برآمدات دریائے سندھ کے ذریعے ہوا کرتی تھیں۔ دنیا بھر سے آنے والے بحری جہاز اور کشتیاں شہر کے کنارے لنگر انداز ہوا کرتے تھے۔ 
مال بردار کشتیوں، جہازوں اور شہریوں کی رہنمائی کے لیے انگریز حکومت نے میونسپلٹی کے قیام کے ساتھ ہی ایک بلند مقام (موجودہ جنرل لائبریری سے متصل) پر پیتل سے بنا گھنٹہ نصب کیا جس کا وزن چار من سے زیادہ تھا۔ تب سے ہی یہ گھنٹہ شہر کی شناخت کا اہم جزو گردانا جاتا تھا۔
بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب نامعلوم افراد میونسپل کارپوریشن کے ایڈمنسٹریٹر کے دفتر سے متصل احاطے میں رکھا گھنٹہ لے اڑے۔
واضح رہے کہ چوری ہونے والا گھنٹہ اپنے اصل مقام سے اتار کر یہاں رکھا گیا تھا اور عمارت کی بحالی کا کام جاری تھا۔
انتظامیہ کا کہنا ہے کہ عمارت کی بحالی مکمل ہونے کے بعد گھنٹہ دوبارہ لگایا جانا تھا۔
گھنٹہ چوری ہونے کی خبر سامنے آنے کے بعد ایڈ منسٹریٹر علی رضا انصاری نے ایس ایس پی سکھر کو تحریری طور پر تاریخی گھنٹہ چوری ہونے کی اطلاع دی۔
ایڈمنسٹریٹر علی رضا انصاری کا کہنا ہے کہ ’یہ قابل افسوس بات ہے کہ شہر کی شناخت میں اہم کردار ادا کرنے والا تاریخی گھنٹہ چوری ہو گیا ہے۔‘
ایڈمنسٹریٹر علی رضا انصاری کے مطابق ہم محکمہ جاتی تحقیقات کر رہے ہیں، اور کوشش ہے کہ گھنٹہ جلد از جلد برآمد کر کے پھر سے نصب کیا جائے۔‘
 پولیس نے تفتیش کے دوران بلدیہ کے دفتر کو جانے والے راستوں کی سی سی ٹی وی ریکارڈنگ حاصل کر لی ہے۔
 دوسری جانب سندھ ہیری ٹیج ڈپپارٹمنٹ کے اہلکار اس تاریخی گھنٹہ کی مالیت لاکھوں میں بتاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ویسے توعام شہری کے لیے پیتل سے تیار کردہ چار من وزنی گھنٹے کی قیمت ایک سے دو لاکھ روپے ہوسکتی ہے، لیکن اگر ہم اس کی تاریخی اہمیت، علاقے کی شناخت اور مخصوص دھات سے بناوٹ کو سامنے رکھ کر دیکھیں تو بین الاقوامی مارکیٹ میں اس کی قیمت کروڑوں میں ہو سکتی ہے۔‘
 

شیئر: