Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نیلا، سبز اور نیل گری، رنگوں کا دلچسپ بیاں

خشکی سے گِھرے ہونے کی رعایت سے فارسی میں ’جھیل‘ کو ’آب گیر‘ بھی کہتے ہیں۔ (فوٹو: پکسابے)
سوکھ گئی جب آنکھوں میں پیار کی نیلی جھیل قتیل 
تیرے درد کا زرد سمندر کاہے شور مچائے گا 
منفرد لہجے کے شاعر قتیل شفائی کے شعر میں ’نیلی جھیل‘ کے مقابل 'زرد سمندر' کی ترکیب لاجواب ہے۔  
'جِھیل' پانی کے اُس قدرے وسیع ذخیرے کو کہتے ہیں جو خشکی کے درمیان گِھرا ہو۔ خشکی سے گِھرے ہونے کی رعایت سے فارسی میں ’جھیل‘ کو ’آب گیر‘ بھی کہتے ہیں۔ پھر مجازاً پانی کا برتن بھی ’آب گیر‘ کہلاتا ہے کہ اس میں بھی پانی ہر طرف سے گِھرا ہوتا ہے۔ 
یوں تو ’جِھیل‘ اردو زبان کا لفظ ہے تاہم اس کی اصل سنسکرت کا ’جَل‘ یعنی پانی ہے، جو تھل (خشکی) سے مل کر ’جَل تھل‘ مچا دیتا ہے۔ خیر ذکر تھا جَل سے بننے والی جھیل کا، تو اب ’جَل‘ اور ’جھیل‘ کی درمیانی کڑی ’جَھل‘ پر غور کریں اور ذہن میں ’جَھل مگسی‘ کا نام تازہ کریں، جس کے لفظی معنی ’مگسی کا تالاب‘ ہیں۔ 
’جھل مگسی‘ صوبہ سندھ سے متصل بلوچستان کا ضلع ہے۔ یہ علاقہ مگسی قبیلے کا مسکن ہے یہاں واقع خوبصورت تالاب کو مگسی قبیلے ہی کی نسبت سے ’جَھل مگسی‘ پکارا جاتا ہے۔  
بات محبوب کی جھیل سی نیلی آنکھوں سے چلی اور ’جھل مگسی‘ میں جا اتری۔ ان نیلی آنکھوں کی کہانی کے بعد اب ’نیل گری‘ کا قصہ سنیں۔ 
’نیل گری‘ جنوبی ہند کے مشہور پہاڑ کا نام ہے، اور اس نام کا مطلب ’سبز پہاڑ‘ ہے۔ دراصل یہ نام دو لفظوں ’نیل‘ اور ’گری‘ سے مل کر بنا ہے، یہ دونوں الفاظ دلچسپی کا سامان لیے ہوئے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ان الفاظ پر الگ الگ گفتگو کی جائے۔ 
ممکن ہے کہ آپ کی سُوئی ’نیل گری‘ کے ’نیل‘ پر اٹکی ہو کہ ’نیل‘ تو نیلے رنگ سے متعلق ہے، تو پھر اسے سبز یا ہرا کیونکر کہہ سکتے ہیں؟  
عرض ہے کہ لفظ ’نیل‘ کی اصل سنسکرت کا ’نیلا / nila / नील‘ ہے۔ ’نیلا‘ صفاتی نام ہے جو گہرے نیلے کے علاوہ گہرے سبز اور گہرے سیاہ کے لیے بولا جاتا ہے۔ اس بات کو اگر عربی کی رو سے سمجھنا ہو تو لفظ ’اسود‘ یعنی ’سیاہ‘ پر غور کریں جو اکثر موقعوں  پر گہرے سبز رنگ کے لیے بولا جاتا ہے۔ 
جنوبی ہند کے علاوہ کشمیر اور اس ملحقہ ایبٹ آباد اور ہری پور وغیرہ کے علاقوں میں بھی ’نیلا‘ بمعنی ’سبز‘ بولا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ان علاقوں میں ہری مرچوں کو ’نیلی مرچیں‘ اور ہری گھاس کو ’نیلی گھاس‘ کہتے ہیں، اور اگر گہرا سبز کہنا ہو تو ’نیلا‘ کے الف کو قدرے کھینچتے ہوئے ’نیلا اااا سبز‘ کہتے ہیں۔ 
جب بندہ پہلی بار جاپان جاتا ہے تو سگنل پر ’سبز اشارہ‘ کے بجائے ’نیلا اشارہ‘ دیکھ کر حیران ہو جاتا ہے۔ پھر اُس کی حیرانی اُس وقت دو چند ہو جاتی ہے جب وہ جاپانیوں کو کتنی ہی سبز اشیاء کو ’اے او‘ یعنی نیلا کہتے سنتا ہے۔
 

 اہل جاپان ’سبز‘ کو ’نیلے رنگ‘ کا پرتو (شیڈ) قرار دیتے ہیں.(فوٹو: پکسابے)

بات یہ ہے کہ اہل جاپان ’سبز‘ کو ’نیلے رنگ‘ کا پرتو (شیڈ) قرار دیتے ہیں، اس لیے سبز رنگ ہی کے مقابل گہرے سبز رنگ کو  ’اے او/ 青‘ یعنی ’نیلا‘ پکارتے ہیں۔ جاپان کے علاوہ کوریا اور افریقہ کی کئی زبانوں میں نیلے رنگ کے لیے رائج لفظ ’ہرے رنگ‘ کی نمائندگی بھی کرتا ہے۔ 
آپس کی بات ہے کہ ان دونوں رنگوں کے حوالے سے یہ ’کنفیوژن‘ اردو میں بھی موجود ہے۔ یقین نہ آئے تو کبھی شدید ضرب سے جسم پر پڑنے والے اُن ہرے نشانات پر غور کریں جنہیں عام طور پر ’نیل پڑ جانا‘ کہتے ہیں۔ 
اردو ہی میں اس ’کنفیوژن‘ کی ایک مثال ’سمندر‘ بھی ہے، جسے ایک شاعر ’ہرا سمندر‘ کہتا ہے تو دوسرا ’نیلا سمندر‘ پکارتا ہے۔ یقین نہ آئے تو ’راشد متین‘ کا شعر ملاحظہ کریں: 
پورا چاند اور ’ہرا سمندر‘ لہروں کا وہ رقص ہوا 
موج موج نشے میں راشد لہر لہر میں لہرے رنگ 
شعر بالا میں سمندر ’ہرا‘ ہے، مگر ایک دوسرے شاعر کے ہاں پہنچتے پہنچتے اس کا ’ہرا‘ رنگ ’نیلا‘ پڑ گیا ہے۔ دیکھیں زبیر رضوی کیا کہہ رہے ہیں۔ 
ہم سے کہتا تھا یہ نادیدہ زمینوں کا سفر 
کہیں صحرا تو کہیں ’نیلا سمندر‘ ہو گا 
اب بات کرتے ہیں ’نیل گری‘ کے ’گری‘ کی، جس کے معنی پہاڑ کے ہیں۔ ’گری‘ سنسکرت کا لفظ ہے۔ وہ معروف پہاڑ جس پر مشہور حکمران چندرا گپت موریہ کے پیروں کے نشان کندہ ہیں، چندرا کی نسبت سے ’چندرا گری‘ کہلاتا ہے۔ اس کے علاوہ ’گری‘ ہی کی نسبت سے پہاڑی سلسلے کو ’گریجال / गिरिजाल ‘ کہتے ہیں۔ 
سنسکرت کا ’گری‘ پہاڑ اور پہاڑی کے معنی کے ساتھ روسی زبان میں بصورت گرا (гора) رائج ہے۔ غالب گمان ہے کہ فارسی زبان کا لفظ ’گور‘ یعنی قبر بھی اسی ’گری‘ سے متعلق ہے، وہ یوں کہ روزمرہ بول چال میں قبر کو ’مٹی کی ڈھیری‘ کہنا عام بات ہے، چوں کہ مٹی کا یہ ڈھیر زمین سے قدرے بلند ہوتا ہے اس لیے ’گور‘ کہلاتا ہے۔

’نیل گری‘ معروف پہاڑ  ہے جس پر مشہور حکمران چندرا گپت موریہ کے پیروں کے نشان کندہ ہیں۔(فوٹو: آن مینوراما)

اس ’گور‘ کو بلوچستان کے مشہور علاقے ’پنج گور‘ کے نام میں بھی دیکھا جا سکتا ہے، جو پنج یعنی پانچ ولیوں کی گور( قبر) کی نسبت سے ’پنجگور‘ کہلاتا ہے۔ 
ماہرین لغات کے مطابق عربی زبان کے لفظ ’قبر‘ کی اصل بھی سنسکرت کا ’گور‘ ہے، وہ یوں کہ ’قبر‘ اپنی اصل میں ایک معرب (عربی میں ڈھالا گیا) لفظ ہے۔  
غور کریں تو صاف سمجھنے میں دیر نہیں لگے گی کہ لفظ ’گور‘ کا ’گاف‘ گاڑھا ہو کر ’قاف‘ ہوگیا اور ’واؤ‘ نے ’با‘ کی صورت اختیار کر لی ہے، یوں ’گور‘ عربی میں ’قبر‘ بن گیا ہے۔ اب اس ’قبر‘ کی رعایت سے استاد قمر جلالوی کا مقبول عام شعر ملاحظہ کریں:
دبا کے قبر میں سب چل دیے دعا نہ سلام 
ذرا سی دیر میں کیا ہو گیا زمانے کو 

شیئر: