Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خسرا سے خواجہ سرا بننے کا دلچسپ قصہ

زنان خانے کے نگہبان عام طورپر ’مخنّث‘ ہوتے تھے اس رعایت سے ’مجازی معنی‘ میں انھیں ’خواجہ سرا‘ کہنے لگے۔ فوٹو: اے ایف پی
عشق کی طرح حماقت کی بھی انتہا نہیں ہوتی۔ یہ ’اَن پڑھ‘ سے ہو تو جہالت اور ’پڑھے لکھوں‘ سے ہوتو مسٹیک (mistake) کہلاتی ہے۔ ایسی ہی ایک مسٹیک ایک نیوزچینل پران الفاظ میں جلوہ گر تھی: 
’چمن میں ’خواجہ سرا‘ کی بیماری شدت اختیار کرگئی ہے۔ کلی ٹاکی میں ’خواجہ سرا‘ سے پانچ بچے جاں بحق ہوئے ہیں۔‘
’ابوملاحم قشقاری‘ اس باب میں نیوز کاسٹر کو بے قصور بتاتے ہیں کہ اسے تو جو پڑھنے کو دیا گیا اس نے پڑھ دیا۔
پھر قصور کس کا ہے؟ ۔۔۔ ہم نے پوچھا
معصومیت سے بولے:۔۔۔ ’نورِجہاں کا‘
کیا مطلب؟ 
مطلب یہ کہ ’قصور‘ ملکۂ ترنم نورِ جہاں کا آبائی شہر ہے۔ تم نے ان کا مشہور نغمہ نہیں سنا:
میرا سوہنا شہر قصورنی
ہویا دنیا وِچ مشہورنی
یہ شعر انہوں نے جس لَے میں سنایا وہ رونے، گانے اور گنگنانے کا نقطہ اتصال تھا۔ نتیجتاً نوحے اور نغمے کا فرق ناپید ہوگیا۔

حماقت ان پڑھ سے ہو تو جہالت اور پڑھے لکھوں سے ہو تو ’مسٹیک‘ کہلاتی ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

آگے بڑھنے سے پہلے ہم اپنے ممدوح کا تعارف کروا دیں۔ یوں تو ان کا نام  کشف و انکشاف سے متعلق ہے، مگر وہ ’ابو ملاحم‘ کہلاتے اورنام کے آخر میں ’قشقاری‘ لگاتے ہیں۔ ’قشقار‘ ان کا وطن مالوف ہے جو ’کاشغر‘ کی بدلی ہوئی صورت ہے۔ اگر کوہ ’تیان شیان‘ کے دامن میں کاشغر کا ڈیرہ ہے تو کوہ ہند کُش کے پہلومیں ’قشقار‘ کا بسیرا ہے۔
موصوف کا وسیلہ معاش کبھی قلم وقرطاس تھا مگر اب یہ امور لیپ ٹاپ پر انجام دیتے اور گاہے غیرمعمولی تحریر کے بعد قلم کے بجائے ’کی بورڈ‘ توڑ دیتے ہیں۔ وکالت اتنی پڑھ چکے ہیں کہ مخاطب کو سیاسی بحث میں الجھا کر کوئٹہ وال ہوٹل تک لے آتے ہیں۔ دوران گفتگو آستینوں کے ساتھ تیور بھی چڑھا لیتے ہیں یوں فریق مخالف کے پاس قائل ہونے کی سوا کوئی راستہ نہیں بچتا۔ اس وقت بھی وہ نیوز کاسٹر کو قصور وار ماننے کو آمادہ نہیں تھے۔ ان کہنا تھا کہ قصوروار کاپی ایڈیٹر ہے، جس نے زبان دانی کے چکر میں نادانی کا مظاہرہ کیا اور مرض ’خَسرہ‘ کو’خواجہ سرا‘ تک پہنچا دیا۔ 
آپ کے خیال میں اصل معاملہ کیا ہے؟
بولے: بات سیدھی اور صاف ہے۔ خبر چمن سے رپورٹ ہوئی ہے۔ اس دور درازعلاقے سے اگر کوئی اردو میں رپورٹنگ کررہا ہے تو یہی لائق تحسین ہے، کجا کہ آپ اُس سے لکھنوی یا دہلوی زبان کی توقع کریں۔
اصل مسئلہ بیان کریں ۔۔۔ ہم نے اُکتا کر کہا۔
موبائل دیکھتے ہوئے بولے: اصل مسئلہ یہ ہے کہ چمن سے جو خبر آئی اس میں بیماری کا نام ’کَھسرا‘ لکھا تھا۔ اس میں کاف ’زبر‘ کے ساتھ تھا جسے کاپی ایڈیٹر نے ’پیش‘ کے ساتھ ’کُھسرا‘ پڑھا، جواُسے غیرادبی معلوم ہوا،چنانچہ اُس نے ’کُھسرا‘ کا مترادف لفظ ’خواجہ سرا‘ درج کردیا۔ اگراس عظیم ادبی خدمت سے پہلے ’بیماری‘ کے سیاق و سباق پر غور کرلیا جاتا تو یہ نہ ہوتا جو ہوگیا ہے۔
چمن کے رپورٹر نے ’خَسرہ‘ کو ’کَھسرا‘ کیوں لکھا ہوگا؟ ۔۔۔ ہمارا اگلا سوال تھا۔
بولے: اس ایک سوال کے دو جواب ہیں اور اپنی جگہ دونوں درست ہیں۔ جس بیماری کو ہم ’خَسرہ‘ کے نام سے جانتے ہیں وہ اصل میں سنسکرت کا لفظ ’کَھسرا‘ ہے۔ چوں کہ ’کھ‘ اور ’خ‘ آوازیں ملتی جُلتی ہیں اس لیے ہم نے ’کَھسرا‘ کو ’خَسرہ‘ بنادیا ہے اور ایسا عربی و فارسی اثر کے تحت ہوا ہے۔
عربی و فارسی اثر والی بات سمجھ نہیں آئی ۔۔۔ ہم نے پوچھا
پہلے انہوں نے فون چارجنگ پرلگایا اور پھر ہماری جانب متوجہ ہوئے: اردو زبان میں کتنے ہی الفاظ ایسے ہیں جو اپنی اصل میں سنسکرتی یا ہندی ہیں، جنہیں ہم نے معمولی تبدیلی سے اپنا لیا ہے۔ جب کہ ہم ان الفاظ کو اصل کے مطابق ادا کرنے کی قدرت رکھتے ہیں، بلکہ ادا کرتے بھی ہیں۔
مثلاً؟ 
مثال سے پہلے یہ سمجھ لو کہ جن الفاظ میں حرف ’ٹے۔ ڈال یا ڑے‘ ہوگا وہ لازمی ہندی سے متعلق ہوں گے۔ دوسری بات یہ کہ ہندی میں ’خے، ذال، ضاد،عین،غین،طوے، ظوے، فے اور قاف‘ کی آوازیں نہیں ہوتیں یہ عربی اور فارسی سے متعلق ہیں۔
ہم نے فوراً نکتہ اٹھایا : اگرایسا ہے تو لفظ ’چٹخنا اور غنڈہ‘ کے بارے میں کیا خیال ہے۔ جن میں عربی آوازوں (خے اور غین) کے ساتھ ہندی آوازیں (ٹے اور ڈال) بھی شامل ہیں۔

موصوف اب قلم و قرطاس کا کام لیپ ٹاپ سے لیتے ہیں۔ فائل فوٹو انسپلیش

مسکرا کر بولے: بہت خوب! اب ذرا ان الفاظ پر غور کرو تمہیں اپنے سوال کا جواب خود مل جائے گا۔ یہ الفاظ اصل میں ’چٹکنا‘ اور’گنڈہ‘ ہیں، انہیں ہم نے عربی و فارسی کے زیراثر’چٹخنا‘ اور’غنڈہ‘ کردیا ہے۔ یوں اب یہ اردو کے الفاظ بن گئے ہیں۔
پر’چٹکنا‘ اور ’چٹخنا‘ نہ صرف دوالگ الفاظ ہیں بلکہ ان کے معنی بھی جدا جدا ہیں ۔۔۔ ہم نے اعتراض کیا۔
بولے: سچ پوچھو تو دونوں ایک لفظ ہیں۔ مگر دونوں کے استعمال میں ایک باریک سا فرق پیدا کرکے انہیں ایک دوسرے سے مختلف بنادیا گیا ہے۔ اس فرق کوگورکھ پور(انڈیا) کے دو نامور شاعروں ’فراق‘ اور’مجنوں‘ کے درمیان ہوئی گفتگو سے سمجھا جاسکتا ہے، ہوا یوں کہ:  
ایک بے تکلف محفل میں مجنوںؔ گورکھپوری نے فراقؔ صاحب سے پوچھا: 
’چٹکنا، اور چٹخنا ‘ میں کس کا استعمال کہاں کرنا مناسب ہے؟‘ 
فراق صاحب نے پہلے تو قہقہہ لگایا پھر بولے: 
’چٹکتی ہے کلی اور جوتیاں چٹخائی جاتی ہیں‘
قشقاری صاحب نے واقعہ سنا کربطور سند فراقؔ گورکھپوری کا شعربھی سنایا:
جہانِ غنچۂ دل کا فقط چٹکنا تھا
اسی کی بوئے پریشاں وجودِ دنیا تھا
واہ : ہم نے بے ساختہ داد دی 
داد کو خاطر میں لائے بغیربولے: بات پلے پڑ گئی کہ کس طرح مرض کَھسرا(Measles) سے ’خَسرہ‘ ہوا اور کس طرح کاپی ایڈیٹر نے ’کَھسرا‘ کو ’کُھسرا‘ سمجھ کر’خواجہ سرا‘ بنا دیا۔ 
اس کا مطلب ہے اصل میں ’خَسرہ‘ کوئی لفظ ہی نہیں ہے؟ ۔۔۔ ہم نے پوچھا
بولے: ایسا میں نے کب کہا؟ ۔۔۔ اول تو خود مرض کا نام بگڑ کر’خَسرہ‘ ہوگیا ہےاوررواج بھی پا چکا ہے۔  دوم ’خَسرہ‘ زمین کی پیداوار اور پیمائش سے متعلق ایک مشہوراصطلاح بھی ہے۔ لغت کے مطابق: ’محکمۂ مال کا باقاعدہ چھپا ہوا رجسٹر جس میں کھیتوں کی نمبروار فہرست، مقام، زمین کا رقبہ، اس کی قِسم، ساتھ ہی کاشتکار کا نام درج ہوتا ہے، ’خَسرہ‘ کہلاتا ہے‘۔ اس سے متعلق ’خَسرہ آبادی، خَسرہ پیمائش اور خَسرہ تقسیم جیسی ترکیبیں عام استعمال ہوتی ہیں۔ 
ہم نے کہا: اب کچھ روشنی ’خواجہ سرا‘ پر بھی ڈال دیں؟

وہ کہتے ہیں نیوز کاسٹر بے قصور ہیں، انہیں جو لکھ کر دیا گیا، وہ پڑھ دیا گیا۔ فائل فوٹو انسپلیش

یک دم سنجیدہ ہوکر بولے:  یہ لوگ ہمارے معاشرے کا مظلوم ترین طبقہ ہیں۔ یہ محبت کے لائق ہیں نہ کہ نفرت کے۔ پھر ایک سردآہ بھری اور موضوع پرآئے:
یہ دو لفظوں ’خواجہ‘ اور ’سرا‘ سے مرکب ہے۔ ’خواجہ‘ کے معنی میں مالک ، آقا ، سردار اور حاکم شامل ہیں۔ دیکھو علامہ اقبال کیا کہہ رہے ہیں:
ممکن نہيں محکوم ہو آزاد کا ہمدوش
وہ بندۂ افلاک ہے، يہ خواجۂ افلاک

 

ایک بات اور، جیسے مختلف علاقوں میں ’سادات‘(سید کی جمع) کو ’شریف، شاہ، میر اور میاں‘ کہا جاتا ہے، ایسے ہی وسط ایشیائی ممالک میں ’سادات‘ کو ’خواجہ‘ کہتے ہیں۔ جبکہ ہمارے برصغیر میں وہ شخص جس کے والد ’شیخ‘ اور والدہ ’سیدانی‘ ہو’خواجہ‘ کہلاتا ہے۔ اس کے علاوہ کشمیر میں حلقہ بگوش اسلام ہونے والے باشندوں کو جو خطابات دیے گئے ان میں ’خواجہ‘ بھی شامل تھا۔ خواجہ کا ذکر تفصیل طلب ہے اس لیے اس کا بیان یہیں روکتے اور ’سَرا‘ پر آتے ہیں۔
’سَرا‘ کے معنی میں گھر،حویلی اور مکان شامل ہیں۔’سَرا‘ کی ایک صورت ’سرائے‘ ہے جو’مسافرخانہ‘ کو کہتے ہیں۔ میرتقی میرؔ کہہ گئے ہیں
ہیں مکان و سرا و جا خالی
یار سب کوچ کر گئے شاید
لفظ ’خواجہ‘ اور ’سَرا‘ کے تعارف کے بعد اب ترکیب ’خواجہ سَرا‘ کے معنی سمجھو۔ ’خواجہ سَرا‘ کے ’لفظی معنی‘ ہیں ’گھر کا مالک‘، ’اصطلاحی معنی‘ہیں ’گھربالخصوص زنان خانے کا نگہبان‘۔ چونکہ زنان خانے کے نگہبان عام طورپر ’مخنّث‘ ہوتے تھے یوں اس رعایت سے ’مجازی معنی‘ میں انھیں ’خواجہ سرا‘ کہنے لگے۔
پھر بولے: فی الحال تو اتنی معلومات سے کام چلاؤ، تفصیلی بات کسی اور دن پر اٹھا رکھتے ہیں۔ یہ کہا اورموبائل میں غوطہ زن ہوگئے۔ 

کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیے ’’اردو نیوز کالمز‘‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: