Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایسے قاتل تو نہ تھے میرے مسیحاؤں میں

احمد فراز بڑے شاعرتھے۔ ان کی شاعری میں جذبات کا ہر رنگ اور احساس کا ہر موسم جھلکتا ہے۔ فراز کو پڑھنے والا کتنے ہی مقامات پر پکار اٹھتا ہے۔ ’میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے‘۔ ایسے ہی ایک مقام پرہم ٹھہر گئے ہیں اور پیش نظرشعر ہے:
چاکِ دل سی کہ نہ سی زخم کی توہین نہ کر
ایسے قاتل تو نہ تھے میرے مسیحاؤں میں 
خیال کی جاذبیت سے قطع نظر شعر کو کسی طور بھی ’ینگ ڈاکٹرز‘ سے متعلق نہ سمجھا جائے۔ شعر کے انتخاب کی وجہ اس میں آئے لفظ ’مسیحا‘ کا تعارف ہے۔ یہ لفظ کئی اعتبار سے دلچسپ ہے۔
لفظ ’مسیحا‘ کی اصل عربی لفظ ’مَسْح‘ ہے۔’مسح‘ کے معنی ’ہاتھ ملنا یا ہاتھ پھیرنا‘ ہے۔ یہ عمل دوران وضو بھی کیا جاتا ہے۔ وہ یوں کہ ترہاتھوں کو سراورگردن پر پھیرتے ہیں۔ اسی لفظ ’مسح‘ سے ’مسیح‘ ہے جوحضرت عیسیٰ علیہ السلام کا لقب ہے۔ چوں کہ جناب عیسیٰ علیہ السلام کے سر پر فرشتوں نے تیل ملا تھا اس لیے آپ کا لقب مسیح پڑگیا۔ قرآن پاک میں آپ جناب کو ’مسیح عیسیٰ ابن مریم‘ بھی کہا گیا ہے۔
حضرت مسیحؑ کی نسبت سے ’مسح‘ (ہاتھ پھیرنا) کو ان کے بعض معجزات میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ آپ پیدائشی اندھے کی آنکھوں پر ’ہاتھ پھیرتے‘ تو اس کی آنکھیں روشن ہو جاتیں اور جزامی ’کوڑھ زدرہ‘ کے بدن پر ’ہاتھ پھیرتے‘ تو وہ شفایاب ہو جاتا تھا۔
اہل فارس نے لفظ ’مسیح‘ سے ’مسیحا‘ بنایا ہے۔ مراد اس سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہی ہیں۔ فرہنگ آصفیہ کے مؤلف مولوی سید احمد دہلوی ’مسیحا‘ کے ذیل میں لکھتے ہیں۔
’بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اصلاً سریانی لفظ ’مشیخا‘ ہے جس کے معنی ’مبارک’ تھا اس سے مسیحا کر لیا گیا‘ ہم مولوی صاحب کی رائے سے متفق نہیں۔ وہ یوں کہ لفظ ’مشیخا‘ صوتی اعتبار سے ’مسیحا‘ کے قریب ہونے کے باوجود معنوی اعتبار سے دور ہے اس کے برخلاف عبرانی لفظ ’مشیاح‘ کی بدلی ہوئی صورت کہہ سکتے ہیں کہ اس کے معنوں میں تیل ملنا شامل ہے۔

ڈاکٹرز کے لیے بھی لفظ ’مسیحا‘ استعمال ہوتا ہے۔ فائل فوٹو: ان سپلیش

 

چوں کہ جناب مسیح عیسیٰ علیہ السلام بیماروں کو شفا یاب کرتے تھے اس لیے مجازاً محبوب و معشوق کو بھی ’مسیحا‘ کہا جاتا
 ہے کہ اُس کے دیکھے سے مریض عشق پھر جی اٹھتا ہے: دیکھیں فیض احمد فیضؔ ایک مسیحا سے کیا شکوہ کررہے ہیں:
بے دم ہوئے بیمار دوا کیوں نہیں دیتے
تم اچھے مسیحا ہو شفا کیوں نہیں دیتے
حضرت عیسیٰ علیہ السلام بیماروں کو شفایاب کرتے تھے اور یہی کوشش ایک درجے میں طبیب اور ڈاکٹر صاحبان بھی کرتے ہیں،یوں انہیں بھی مجازاً ’مسیحا‘ کہا جاتا ہے، اسی طرح مردہ یا بیمار قوم میں زندگی کی روح بیدار کرنے والا رہنما یا مفکر بھی ’مسیحا‘ کہلاتا ہے۔
لفظ ’مسیحا‘ سے فارسی اور اردو میں کئی الفاظ اور تراکیب بنائی گئی ہیں جیسے مسیحائی، مسیحا نفس، مسیحا نفسی، مسیحا دَم، مسیحا صفت اور مسیحا وار وغیرہ اب لفظ ’مسح‘ کے حوالے سے ایک آخری بات ملاحظہ کریں جو کسی طور بھی دلچسپی سے خالی نہیں۔ عربی زبان کا لفظ ’ مَس‘ اردو میں بھی رائج ہے۔ ’مَس‘ کے معنی ہیں ’چھونا‘ جبکہ ایک اور لفظ ’لمس‘ ہے جو ’چھونے کی کیفیت‘ کو ظاہر کرتا ہے۔ اب دونوں الفاظ کے مشترک حروف (م جمع س برابر ہے مس اور مشترک مفہوم (چھونا) کے ساتھ لفظ ’مسح‘ پر غور کریں آپ کو تینوں الفاظ ایک صف میں کھڑے نظر آئیں گے۔
لفظ ’مَس، لمس اور مسح‘ میں موجود لفظی مناسبت اور مشترک مفہوم ’اشتقاق اکبر‘ کی تعریف میں آتا ہے۔ ’اشتقاق اکبر‘ کیا ہے اس کی وضاحت کو اسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں اور آگے بڑھتے ہیں۔

لفظ ’مسح‘ سے ’مسیح‘ ہے جوحضرت عیسیٰ  کا لقب ہے۔ فائل فوٹو: ان سپلیش

کراچی سے ایک مسیحا نفس دوست ڈاکٹر ظفر اقبال نے لفظ ’ستیاناس‘ کا حدود اربعہ پوچھا ہے نیز یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ لفظ ’بِراجمَان‘ کا ’ترجُمان‘ سے کیا تعلق ہے؟ کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا؟ ڈاکٹرصاحب خود ماہر لسانیات ہیں ان کا شعبہ نیورولوجی ہے اور حرف شناسی کا شوق رکھتے ہیں۔ سچ پوچھیں تو یہ استفسار ہمارے لیے آزمائش ہے چونکہ ان کا کہا حکم کا درجہ رکھتا ہے لہٰذا
جانا ہے اسی سمت کہ چارہ کوئی نہیں. لفظ ’ستیاناس‘ کا تعلق ہندی زبان سے ہے۔ ’ستیاناس‘ مکمل اور کبھی فقط ’ناس‘ کے ساتھ اردو بول چال میں عام برتا جاتا ہے۔’ستیاناس‘ کے معنی ’یکسر تباہ و برباد، خراب و خستہ، نام و نشان نہ رہنا‘ شامل ہیں۔ اردو میں ’ستیاناس ہونا، ستیاناس مارنا اور ’ستیاناس جانا‘ عام محاورے ہیں، داغ دہلوری کے شاگرد نوح ناروی کہہ گئے ہیںے ہیں:
ستیاناس ہو گیا دل کا
عشق نے خوب کی اکھاڑ پچھاڑ
’ستیاناس‘ ہی سے ایک لفظ ’ستیاناسی‘ بھی ہے۔ یہ ایک خودرو پودے کا نام ہے۔ اسے انگریزی میں Yellow thistle کہتے ہیں، یہ کھیتوں میں پیدا ہو کر انہیں اجاڑ دیتا ہے۔ اس لیے اسے ’اجڑ کانٹا‘ یا ’ستیاناسی‘ کہا جاتا ہے ’ستیاناسی‘ بطور صفت بھی بولا جاتا ہے جس کے معنی ’اجاڑنے والا، منحوس اور آوارہ ‘ آئے ہیں۔ ایک محاورہ ’ستیاناسی کی جڑ‘ ہے جو ’خانہ خراب‘ اور ’فتنہ پرداز‘ کے لیے بولتے ہیں۔
اب لفظ ’براجمان‘ اور ’ترجمان‘ کی بات ہو جائے۔ دونوں لفظوں میں ہم قافیہ ہونے کے سوا کوئی مناسبت نہیں ہے۔’بِراجَمان ہندی لفظ ہے اس کے معنی میں ’رونق افروز ہونا، زینت بخشنا اور تشریف رکھنا‘ شامل ہیں۔ اس سلسلے کا ایک لفظ ’بِراجنا‘ بھی ہے جو ’بِراجمان‘ کا ہم قبیلہ ہی نہیں قریب المعنی بھی ہے۔ دیکھیں شاعر ’اورنگزیب‘ کیا کہتے ہیں
روز ’براجنا‘ ہوتا ہے اک نیا سنگھاسن مجھ کو زیبؔ 
روز کے روز اسی دھارا کے سکے جاری کرتا ہوں 

ستیاناسی ایک پودے کا بھی نام ہے جو پوری فصل کو اجاڑ دیتا ہے۔ فوٹو سوشل میڈیا

لفظ ’ترجمان‘عربی الاصل ہے۔ اس کا رشتہ ’ترجمہ‘ سے ہے۔ ’ترجمہ‘ کا مطلب ہے’ایک زبان سے دوسری زبان میں بیان کیا ہوا‘۔ جبکہ ترجمہ کرنے والے کو ’مترجم‘ اور ’ترجمان‘ کہتے ہیں، تاہم ’مترجم‘ کی بہ نسبت ’ترجمان‘ کے معنی میں زیادہ وسعت ہے۔ وہ یوں کہ ایک زبان کی لکھی یا کہی بات کو دوسری زبان میں منتقل کرنے والا ’مترجم‘ ہوتا ہے جب کہ ترجمے کے علاوہ کسی بات کو اس زبان میں آسان طور پر یا وضاحت کے ساتھ بیان کرنے والا ’ترجمان‘ کہلاتا ہے۔ دلی کے باسی ’گوپال متل‘ کہہ گئے ہیں
ہائے وہ داستانِ غم جس کی 
خامشی ترجمان ہے پیارے
یہ بات دلچسپ ہے کہ لفظ ’ترجمان‘ کی اصل ’الرجام‘ ہے، جس کے معنی ’پتھر‘ کے ہیں۔ اسی ’رجام‘ سے لفظ ’الرجم‘ ہے جس کا مطلب ’سنگسار کرنا‘ ہے۔ پھر استعارے کے طور پر لفظ ’رَجَم‘ ہے جو جھوٹے گمان، برا بھلا کہنے اور کسی کو دھتکار دینے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ ’ترجمان‘ کا تعلق ’رجم‘ سے ہے۔ تاہم جس معنی ’ترجمان‘ بولا جاتا ہے اس کا تعلق لفظی معنی سے زیادہ اصلاحی مفہوم سے ہے۔ اسی ’رَجْمٌ‘ سے لفظ ’رجیم‘ بھی ہے جس کے معنی میں دھتکارا ہوا اور مردود شامل ہے۔ اسے ہم تعوذ (اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم) میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔ ’رجیم‘ کے حوالے سے عربی، فارسی اور سنسکرت زبان کے مشہور عالم ’پنڈت برجموہن دتاریہ کیفی‘ کا ایک شعر ملاحظہ کریں اور ہمیں اجازت دیں۔:
کبر ہی سے تو عزازیل ہے شیطان رجیم 
آدمی ہے وہی انسان جو مغرور نہیں 

کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیے ’’اردو نیوز کالمز‘‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: