Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’حال دلِ کا بیان فراز کی کمزوری تھا‘

’بھونپو‘ کی جدید صورت لاؤڈ سپیکر(loudspeaker) ہے (فوٹو: تھاٹ کو)
یہ کیا کہ سب سے بیاں دل کی حالتیں کرنی
فرازؔ تجھ کو نہ آئیں محبتیں کرنی
احمد فراز بڑے شاعر تھے اور’شبلی فراز‘ اُن کے بڑے بیٹے ہیں۔ حال دلِ کا بیان ’فراز‘ کی کمزوری تھا اور’شبلی فراز‘ کی مجبوری ہے کہ وزارتِ اطلاعات کا ’قلم دان‘ سنبھال لیا ہے۔ دیکھا جائے تو یہ موقع ’قلم دان‘ نہیں ’بَھونپُو‘ سنبھالنے کا تھا کہ اس بے وفا وزارت کا کام ناکردہ کاریوں کی تشہیر ہے۔ 
خیر ہمیں وزارت سے نہیں ’بَھونپُو‘ سے دلچسپی ہے جس کے معنی میں’ناقوس‘ اور ’بگل‘ وغیرہ شامل ہیں اوراس رعایت سے اُس سادہ سی کَل کو بھی ’بَھونپُو‘ کہتے ہیں جو آواز کو کئی گنا زیادہ بڑھانے کا کام دیتی ہے۔ اس بات کو ’تنویرسپرا‘ کے اس شعر سے سمجھیں:
تنویرؔ اب تو حلق سے ’بھونپو‘ کا کام لے
بہرے ہوئے ہیں کان مشینوں کے شور سے
اس ’بھونپو‘ کی جدید صورت لاؤڈ سپیکر(loudspeaker) ہے۔ نئی نسل کو اردو سے بدگمان کرنے کے لیے کسی دل جلے نے ’لاؤڈ سپیکر‘ کا اردو ترجمہ ’آلۂ مکبرالصوت‘ کیا ہے۔ کمزور دل افراد ایسے الفاظ بھی زبان پر نہیں لاتے کہ لقوہ نہ مار جائے۔
ہم نے اپنی تشویش کا اظہار ایک ہفت زبان سے کیا تو ہنس کر بولے ’ یہی معاملہ ہندی کے ساتھ بھی ہے۔ جب ہندی کو ’بدیسی‘ الفاظ  سے ’پاک‘ کرنے کا عمل شروع ہوا تو ان کی جگہ سنسکرت کے ایسے کھڈب اور کٹھور الفاظ سننے میں آئے کہ خدا کی پناہ۔

سینٹر شبلی فراز نے وزارتِ اطلاعات کا قلم دان سنبھالا ہے (فوٹو: اے پی پی)

اس ’لاؤڈ سپیکر‘ ہی کو دیکھ لو، کسی گیانی نے ہندی میں اس لفظ کا ترجمہ ’ دھوانی وستآرکا یانتر/ ध्वनि-विस्तारक यंत्र کیا ہے۔ تمھیں نہیں پتا کتنے ہی بھگت اس ’یانتر‘  کو ’منتر‘ سمجھ کر اس کا چاب کرتے اور سمجھتے ہیں کہ ’بھگوان‘ ’ اُن کی پراتھنائیں‘ جلد سُن لے گا۔
ہم نے کہا: ’اس کا کوئی آسان ترجمہ نہیں ہوسکتا؟‘ 
بولے : ’عربی میں اس کا لفظی ترجمہ ’مکبرالصوت‘ کیا گیا ہے جو عربی زبان کے مزاج کے مطابق درست ہے مگر اسی ’مکبر الصوت‘ میں ’آلہ‘ لگا کر اردو کے سر مونڈھ دینا زیادتی ہے۔
’اردو میں اس کا درست ترجمہ کیا ہونا چاہیے؟‘ ہم نے اگلا سوال کیا۔
بولے: سچ پوچھو تو ’لاؤڈ سپیکر‘ اردو میں یوں گُھل مل گیا ہے کہ اب اس کا کوئی بھی ترجمہ خود اجنبی بن جائے گا۔ تاہم صاحبِ طرز نثرنگار مختار مسعود نے فارسی زبان کی رعایت سے ’لاؤڈ سپیکر‘ کا ترجمہ ’بلندگو‘ لکھا ہے۔ 
ہمارے مطابق فارسی کا ’بلند گو‘ عربی کے ’مکبرالصوت‘ کے مقابلے میں آسان اورعام فہم ہے۔ ’بلند گو‘ کہنے، سننے اور سمجھنے میں ایسی کوئی مشکل پیش نہیں آتی جس کا سامنا ’آلہ مکبر الصوت‘ کی صورت میں کرنا پڑتا ہے۔ جناب مختارمسعود نے اس لفظ کا استعمال ایک سے زیادہ بار کیا ہے۔ تاہم حیرت انگیز طور پر وہ اپنی آخری کتاب ’حرفِ شوق‘ میں اس لفظ سے دستبردار ہوگئے، اور ’بلندگو‘ کی جگہ ’آوازرساں‘ لکھا ہے۔ چونکہ یہ لفظ نسبتاً نیا تھا اس لیے انہیں وضاحت کے لیے قوسین میں loudspeaker بھی درج کرنا پڑا۔ اگر ’آوازرساں‘ اتنا ہی سادہ تھا تو پھر:
’کیا ضرورت ہے اس وضاحت کی‘
’آوازرساں‘ کے لفظی معنی ہیں ’آوازپہنچانے والا‘۔ یوں تو یہ لفظ بھی سبک اور سہل ہے مگر’ آواز رساں‘ کہتے ہی ذہن ’ ضرررساں‘ (نقصان پہنچانے والا) کی طرف منتقل ہوجاتا ہے۔ ایسے میں اس لفظ کی شگفتگی اور شائستگی برقرار نہیں رہتی۔

مشہور نثرنگار مختار مسعود نے فارسی زبان کی رعایت سے ’لاؤڈ سپیکر‘ کا ترجمہ ’بلندگو‘ لکھا ہے (فوٹو: روئٹرز)

’ضرررساں‘ کا پہلا لفظ ’ضرر‘ عربی زبان سے متعلق ہے اور اردو میں عام رائج ہے۔ ’ضرر‘ کے معنی میں ’نقصان، ایذا، آزار، صدمہ اور تکلیف وغیرہ شامل ہیں۔ اسے آپ ’ضررآلود‘، ’ضررآور‘ اور’ضرردیدہ‘ جیسی تراکیب میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔
اس ’ضرر‘ سے لفظ ’مضر‘ بنا ہے جو کبھی سگریٹ کے پیکٹ پر’مضر صحت‘ کی ترکیب کے ساتھ  درج ہوتا تھا، مگر پینے والوں نے اسے مذاق سمجھ کر دھوئیں میں اُڑا دیا، نتیجتاً اپنا مستقبل بھی دھندلا دیا۔ اس سے پہلے کہ بات آگے بڑھے ’ضرر‘ کی رعایت سے عبدالحمید عدم کا ایک خوبصورت شعر ملاحظہ کریں:
ذرا آگے چلو گے تو اضافہ علم میں ہوگا
محبت پہلے پہلے بے ضرر محسوس ہوتی ہے
اس ’ضرر‘ کا ہم قبیلہ لفظ ’ ضِرار‘ بھی ہے۔ یوں تو دونوں الفاظ کے معنی ’نقصان‘ کے ہیں مگر اطلاق میں دلچسپ فرق ہے۔ ایک معروف مفسر قرآن کے مطابق ’ضرر‘ اس نقصان کو کہا جاتا ہے جس میں اس کے کرنے والے کا اپنا تو فائدہ ہو لیکن دوسروں کا نقصان ہو، جیسے شیر کی صفت ہے کہ وہ غیر کی جان کا نقصان کرکے اپنے لیے فائدہ حاصل کرتا ہے۔ جب کہ ’ضِرار‘ دوسروں کو ایسا نقصان پہنچانے کو کہتے ہیں جس میں اپنا کوئی فائدہ نہ ہو، جیسے سانپ یا بچھو کہ دوسروں کو بے وجہ بھی مار ڈالتے ہیں۔
آسان الفاظ میں کہیں تو’ضرر‘عام اور ’ضِرار‘ خاص ہے۔ ’ضِرار‘ کی اس تعریف کے ساتھ منافقین کی بنائی ’مسجد ضِرار‘ پر غور کریں بات اورآسان ہوجائے گی۔

’ضرررساں‘ کا پہلا لفظ ’ضرر‘ عربی زبان سے متعلق ہے (فوٹو: انسپلیش)

ہمارے یہاں بیوی کے نازونخرے بلکہ جھگڑے محاوروں سے نکل کر ’لطائف‘ میں داخل ہوچکے ہیں۔ دانا لوگ ان جھگڑوں کا علاج دوسری شادی کی صورت میں کرتے ہیں۔ یقین نہ آئے تو عربی زبان سے رجوع کریں جس میں ایک شخص کی دوبیویاں ’ضَرَّتَان‘ کہلاتی ہیں کہ ہر ایک دوسری کے لیے ’ضرررساں‘ ہوتی ہیں۔ یعنی دونوں بیگمات آپس میں لڑتی رہتی ہیں یوں شوہر سکون میں رہتا ہے۔
اس ’ضرر‘ سے لفظ ’ضرور، ضروری اورضرورت‘ بھی ہے۔ آپ پوچھ سکتے ہیں کہ وہ کیسے؟
عرض ہے کہ ’ضرورت‘ ایسی مصیبت اور پریشانی میں مبتلا ہوجانے کو کہتے ہیں جس کے دور کرنے کی کوئی صورت نہ ہو اور نتیجتاً نقصان کا اندیشہ ہو۔
 عربی کے برخلاف اردو میں ’ضرورت‘ کے معنی میں شدت نہیں پائی جاتی یہ ’حاجت‘ کے مترادف کی طورپر برتا جاتا ہے۔ جس سے اردو میں دسیوں تراکیب اور محاورے وابستہ ہیں۔ انہیں میں سے ایک مشہور محاورہ وہ بھی ہے جس میں ’ضرورت‘ کو ایجاد کی والدہ محترمہ کا درجہ حاصل ہے۔ یعنی ’ضرورت ایجاد کی ماں ہے‘ ۔ 
چوں کہ بات ’ضرورت‘ سے زیادہ بڑھ چکی ہے اس لیے ہمیں اجازت دیں،مگراس قبل ضرورت کی رعایت سے لکھنؤ (انڈیا) کے نوجوان شاعرشاہد کمال کا شعر ملاحظہ فرمالیں:
یہ ضرورت ہے تو پھر اس کو ضرورت سے نہ دیکھ 
اپنی چاہت کو کسی اور کی چاہت سے نہ دیکھ 
  • واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر:

متعلقہ خبریں