Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’کبھی کوئی فیصلہ دباؤ میں نہیں کیا، کسی کی جرات نہیں ہوئی کہ فیصلے کرائے‘

چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ ’کبھی کوئی فیصلہ دباؤ میں نہیں کیا‘ (فوٹو: سکرین گریب)
پاکستان کے چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا ہے کہ ’ملک میں جہوریت، آئین اور قانون کے علاوہ کوئی دوسرا سیٹ اپ قبول نہیں کریں گے۔‘
سنیچر کو لاہور میں انسانی حقوق کی وکیل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی سابق صدر عاصمہ جہانگیر کی یاد میں کانفرنس سے خطاب میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ ’کبھی کوئی فیصلہ دباؤ میں نہیں کیا، کسی کی جرات نہیں ہوئی کہ مجھ سے فیصلے کرائے۔‘
انہوں نے وکیل رہنما علی احمد کرد کی تقریر کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’اداروں کے دباؤ والی بات درست نہیں، مجھ پر کبھی کوئی دباؤ نہیں آیا۔‘
چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کا مزید کہنا تھا کہ عدالتیں انصاف دے رہی ہیں اور آزادی سے فیصلہ کرتی ہیں۔ ’غلط فہمیاں پیدا نہ کریں، اداروں پر سے لوگوں کا بھروسہ نہ اٹھائیں۔‘
کانفرنس سے خطاب میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پاکستان بننے کے بعد عدلیہ کا پہلا امتحان مولوی تمیزالدین خان کیس تھا۔ اگر جسٹس منیر نے ہائیکورٹ کا فیصلہ نہ بدلا ہوتا تو اس ملک کا مستقبل بہت مختلف ہوتا۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ’سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس جارج کانسٹنٹائن کی سربراہی میں عدلیہ نے پہلا لینڈ مارک فیصلہ سنایا تھا، جس پر فخر ہونا چاہیے۔ اگر وہ فیصلہ سپریم کورٹ کے جسٹس منیر نے نہ بدلا ہوتا، تو اس ملک کا مستقبل بہت مختلف ہوتا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’یہ وہ موقع تھا جب جمہوریت کو پٹڑی سے اتارا گیا، جمہوریت کو تباہ کیا گیا، میں بطور چیف جسٹس کسی پر بھی الزام نہیں لگا سکتا۔‘
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ’پھر اس کے بعد ڈوسو کیس تھا، دوسرا کیس محترمہ نصرت بھٹو کیس، پھر ظفر علی شاہ کیس، یہ تمام فیصلے تاریخ کا حصہ ہیں جنہیں ہم تاریخ سے مٹا نہیں سکتے۔ ان فیصلوں کے ذریعے (عناصر) کو اپنی طاقت کے استعمال کا موقع ملا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ایک ادارے کے لیے اس سے زیادہ افسوسناک کیا ہو سکتا ہے کہ ایک منتخب وزیراعظم کے خلاف فیصلہ دیا گیا اور فیصلہ کرنے والے بینچ کے معزز جج نے اعتراف بھی کیا کہ انہیں اس لیے پھانسی پر چڑھایا گیا کیونکہ دباؤ کا سامنا تھا۔‘
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے مطابق ’عدلیہ بطور ریاست کے ایک ستون اپنی غلطیاں تسلیم کرنے سے انکار نہیں کر سکتی۔ ہم نے اس ملک کی تاریخ کا رخ بدلا ہے۔‘

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے کہا کہ ’رجعت پسند حکومتوں نے بنیادی حقوق تباہ کیے‘۔ فوٹو اے ایف پی

کانفرنس سے خطاب میں چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ پاکستان کے وجود کے نصف برسوں میں تو آمرانہ حکومتیں اقتدار میں رہی ہیں۔
’رجعت پسند حکومتوں نے بنیادی حقوق تباہ کیے اور آزادی کو دبایا۔ لیکن یہ جدوجہد عدلیہ اکیلے نہیں کر سکتی۔ دیگر کھلاڑی بھی اتنے ہی ذمہ دار ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’سب ذمہ دار ہیں لیکن ریاست کے عدالتی ستون ہونے کے ناطے بنیادی ذمہ داری ہماری ہے۔ ریاست کا ہر ستون چاہے میڈیا ہے یا سول سوسائٹی، چاہے وکلا ہوں ہر ایک کو خود اپنا جائزہ لینا پڑے گا۔‘ 
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ’امریکی وکیل اور صدر جان ایڈمز نے دو اہم حقوق کی نشاندہی کی تھی جن میں سے ایک خودمختار عدلیہ تک رسائی اور دوسرا آزاد پریس تھی۔ لیکن آزاد پریس سے میری مراد آزاد اور خودمختار پریس اور میڈیا ہے جو مالکان کے کنٹرول میں نہ ہو جن کے ذاتی مفادات ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اگر آزاد میڈیا نہیں ہوگا یا آزادی رائے نہیں ہوگی تو عدلیہ بھی خودمختار نہیں ہوگی۔ یہ ایک دوسرے پر منحصر ہیں۔ لیکن میڈیا کو ذمہ دار ہونا پڑے گا۔‘ 
چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ ’اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے یقین دہانی دلاتا ہوں کہ ہم پر عزم ہیں کہ اپنی غلطیوں کو نہ دہرائیں اور حقائق کو نظر انداز نہ کریں۔ یہ ہمارا فرض اور ذمہ داری ہے کہ ہم لوگوں کا اعتماد حاصل کریں جو اس ادارے کے حقیقی سٹیک ہولڈرز ہیں اور امید ہے کہ دوسرے بھی ایسا ہی کریں گے۔‘

شیئر: