آپ نے اگر اپنے عدالتی کیس کے حوالے سے کسی مہنگے وکیل کی خدمات حاصل کر رکھی ہوں اور آپ یہ سمجھ رہے ہوں کہ وہ وکیل آپ کو انصاف دلائے گا، لیکن اچانک آپ پرانکشاف ہو کہ آپ کا وکیل ہی جعلی ہے اور جس شخص کو آپ نے لاکھوں روپے دیے ہیں وہ دراصل وکیل نہیں بلکہ ایک جعل ساز ہے تو پھر آپ کو یقیناً شدید دکھ اور مایوسی ہوگی۔
اسی طرح کے کیسز راولپنڈی اور اسلام آباد میں گذشتہ کچھ عرصے کے دوران پیش آ چکے ہیں جہاں مختلف بارز نے ایسے کئی افراد کو پکڑا ہے جو وکیل بن کر لوگوں کو دھوکا دے رہے تھے۔
کچھ ایسے کیسز بھی سامنے آئے جن میں وکیل ایک دو سال نہیں بلکہ 15 سال تک اور ایک کیس میں تو 20 سے 25 سال تک جعلی وکیل بن کر پریکٹس کرتے رہے۔ ان کے پاس ڈگری ہی نہیں تھی لیکن وہ عدالتوں میں پیش ہوتے رہے اور اپنا دھندا چلاتے رہے۔
مزید پڑھیں
-
جوڈیشل کمیشن کا اجلاس، وکلا تنظیموں نے ہڑتال کی کال مسترد کر دیNode ID: 885656
-
ججز کی تقرری کے طریقہ کار کے خلاف اسلام آباد میں وکلا کا احتجاجNode ID: 885672
-
لاہور کی خاتون وکیل کا قتل جو پولیس کے لیے معمہ بن گیاNode ID: 885986
راولپنڈی کے رہائشی محمد حسین (فرضی نام) کا کیس اس کی ایک مثال ہے۔ انہوں نے حالیہ عرصے میں ایک بڑے وکیل کو ہائر کیا جو اپنے نام کے ساتھ ایڈووکیٹ لکھتے تھے۔ ان کے کیس کی سماعتیں چلتی رہیں اور وکیل نے دورانِ کیس لاکھوں روپے وصول کر لیے۔ لیکن ایک دن محمد حسین پر یہ انکشاف ہوا کہ جس وکیل کو انہوں نے فیس دی تھی وہ دراصل جعلی وکیل ہے۔ بار کونسل نے کارروائی کرتے ہوئے اس شخص کو پولیس کے حوالے کر دیا۔
اس معاملے پر اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے راولپنڈی ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کی نائب صدر نائلہ فیصل نے بتایا کہ ’دو گرفتار کیے جانے والے جعلی وکیلوں میں سے ایک کا نام وسیم تھیم ہے جو پچھلے 15 سال سے خود کو وکیل ظاہر کر رہا تھا، جبکہ دوسرا محمد حنیف نامی شخص تھا جو پہلے بار میں منشی رہا اور بعد میں جعلی وکیل بن گیا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’ہمیں ان پر اس وقت شک ہوا جب انہوں نے اچانک اپنے نام کے ساتھ ایڈووکیٹ سپریم کورٹ لکھنا شروع کیا۔ ان سے جب ڈگریاں اور پنجاب بار کا لائسنس مانگا گیا تو وہ آئیں بائیں شائیں کرنے لگے اور بالآخر یہ ثابت ہو گیا کہ وہ جعلی وکیل ہیں جس کے بعد ان کے خلاف پولیس کارروائی کی گئی اور کچہری میں ان کے داخلے پر پابندی لگا دی گئی۔ دونوں اس وقت بھی پولیس کی حراست میں ہیں۔‘
نائلہ فیصل نے تسلیم کیا کہ ’یہ جعلی وکیل شہریوں سے لاکھوں روپے وصول کر چکے تھے اور عدالت کے ساتھ بددیانتی کے مرتکب ہوئے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’راولپنڈی کی ایک اور عدالت میں ایک شخص 22 سے 23 سال تک جعلی وکیل بن کر پیش ہوتا رہا۔ یہاں تک کہ جج صاحبان بھی اسے نام سے جانتے تھے، لیکن بعد میں انکشاف ہوا کہ اس کے پاس ڈگری ہی نہیں تھی۔‘

اسی معاملے پر اسلام آباد ڈسٹرکٹ بار کے سیکریٹری جنرل عبدالحلیم بوٹو نے بھی تصدیق کی کہ ’دو ماہ قبل اسلام آباد کی عدالتوں سے بھی ایک جعلی وکیل پکڑا گیا جو مقدمات کی پیروی کر رہا تھا۔ اس کا نام پٹیشنز پر بھی درج ہوتا اور وہ سماعتوں میں شریک ہوتا تھا، مگر تفتیش کے بعد ثابت ہوا کہ اس کے پاس جعلی لائسنس ہے۔جس کے بعد بار نے فوری کارروائی کرتے ہوئے اس کے عدالتوں میں داخلے پر پابندی لگا دی اور اسے پولیس کے حوالے کر دیا۔‘
اس حوالے سے اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے سابق صدر ریاست علی آزاد نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ہمیں دو طرح کے جعلی وکیلوں کا سامنا ہے ایک وہ جو جعلی ڈگری اور لائسنس بنا کر پریکٹس کرتے ہیں جبکہ دوسرے وہ جو صرف وکیل کا یونیفارم پہن کر خود کو ایڈووکیٹ ظاہر کرتے ہیں۔‘
’ایسے جعلی وکلا کے خلاف بار کونسلز کارروائی کر سکتی ہیں اور ان پر تعزیراتِ پاکستان کے تحت مقدمات بھی قائم کیے جا سکتے ہیں۔‘
اردو نیوز نے جعلی وکلا کے سامنے آنے کے معاملے پر سینیئر وکیل اور ایڈووکیٹ سپریم کورٹ حافظ احسان احمد کھوکھر سے بھی رابطہ کیا اور اُن کی رائے جانی۔
اُنہوں نے اس بارے میں بتایا کہ ’جعلی وکلا عوام اور وکلا برادری دونوں کے لیے سنگین خطرہ ہیں کیونکہ یہ نہ صرف دھوکا دہی میں ملوث ہوتے ہیں بلکہ وکالت اور عدلیہ کے وقار کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں۔‘
اُن کا کہنا تھا کہ ’پاکستان بار کونسلز ایکٹ 1973 کے تحت بارز کو ایسے وکلا کے خلاف کارروائی کرنے کا اختیار حاصل ہے، اور صرف پنجاب بار کونسل اب تک تقریباً دو ہزار جعلی وکلا کو بے نقاب کر چکی ہے۔‘

انہوں نے مزید وضاحت کی کہ ’ماضی میں ڈگری اور شناخت کی تصدیق کا کوئی مؤثر نظام موجود نہیں تھا جس کی وجہ سے یہ عناصر بارز تک پہنچنے میں کامیاب ہو جاتے تھے، تاہم اب ڈگری ویریفکیشن، بایومیٹرک سسٹم اور سخت جانچ پڑتال کے بعد ان کے لیے یہ راستہ تقریباً بند کر دیا گیا ہے۔‘
حافظ احسان احمد کھوکھر کے مطابق مستقل بنیادوں پر اس مسئلے کے حل کے لیے ضروری ہے کہ ایک مرکزی ڈیجیٹل ڈیٹا بیس قائم کیا جائے جس تک عوام اور عدلیہ دونوں کی رسائی ہو، جعلی وکیلوں کا اندراج سخت ڈسپلنری کارروائی کے ذریعے منسوخ کر کے ان کے خلاف فوجداری کارروائی کی جائے اور عوامی آگاہی مہمات کے ذریعے شہریوں کو یہ شعور دیا جائے کہ کسی بھی وکیل کو ہائر کرنے سے پہلے وہ اس کا بار ریکارڈ اور انرولمنٹ نمبر لازمی چیک کریں۔
راولپنڈی ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کی نائب صدر نائلہ فیصل نے شہریوں کو جعلی وکلا کے جھانسے سے بچنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ عوام کو چاہیے کہ کسی وکیل کو لاکھوں روپے دینے سے پہلے متعلقہ بار کے دفتر جا کر یہ تصدیق ضرور کر لیں کہ وہ شخص واقعی بار کا رجسٹرڈ رکن ہے یا نہیں۔