Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جمہوریت اِن ڈیڈلاک: ماریہ میمن کا کالم

ترقی یافتہ جمہوریتوں میں تو اختلاف کا آغاز بینادی سطح سے ہی شروع ہو جاتا ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
جمہوریت کا حسن اختلاف اور اتفاق دونوں میں ہے۔ وہ جمہوریت ہی کیا جس میں اختلاف نہ ہو۔
ہمارے ہاں بدقسمتی سے پارٹیوں کے اندر اختلاف کی روایت کم ہے جبکہ ترقی یافتہ جمہوریتوں میں تو اختلاف کا آغاز بینادی سطح سے ہی شروع ہو جاتا ہے مگر پھر جمہوریت کا دوسرا دیرپا پہلو سامنے آتا ہے۔ وہ پہلو ہوتا ہے مل بیٹھ کر اختلافات کا حل نکالنا۔ اس کے لیے ایوان اور پارلیمنٹ کی تشکیل ہوتی ہے۔ وہاں پر بحث اور دلائل دیے جاتے ہیں۔ لہجہ تلخ بھی ہوتا ہےاور شیریں بھی مگر کام چلتا رہتا ہے اور یہ کام ہوتا ہے قومی سطح کے فیصلوں کا۔ اس میں قانون سازی بھی شامل ہوتی ہے اور قومی سطح پر فیصلہ سازی بھی۔  
ہمارے ہاں مگر کام چل نہیں رہا۔ ہر وہ فیصلہ جس میں مختلف پارٹیوں کی مشاورت اور اتفاق درکار ہے وہ ڈیڈ لاک کا شکار ہے۔ چیئرمین نیب کا معاملہ ہے تو وہاں ڈیڈ لاک۔ قانون کا تقاضا ہے کہ اپوزیشن لیڈر سے مشاورت کی جائے جس کے لیے حکومت تیار نہیں۔ نتیجہ ہے ڈیڈلاک۔ الیکشن کی اصلاحات اور خصوصاً الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر تو ڈیڈلاک سہ طرفہ ہے جس میں الیکشن کمیشن بھی شامل ہے۔
حکومت کی طرف سے متنازع میڈیا اتھارٹی بل پر تو بات ڈیڈلاک سے بڑھ کر باقاعدہ الزامات تک پہنچ گئی۔ اسی طرح صوبہ سندھ جو کہ وفاق کی واحد اپوزیشن ہے اور اب نسبتاً سافٹ موقف کی طرف آ چکی ہے وہاں بھی کراچی کے ترقیاتی فنڈز کے حوالے سے ڈیڈ لاک ہیں۔ لمبے چوڑے پیکیجز کا اعلان کیا گیا مگر حالات جوں کے توں ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ جمہوریت ہی ڈیڈ لاک میں ہے۔ 
جمہوریت کی عملی شکل پارلیمنٹ ہے۔ وہاں پر ظاہر ہے وزیراعظم قائد ایوان ہیں اور ان کے ایک طرف سپیکر ہیں اور دوسری طرف چیئرمین سینیٹ اور ساتھ  حکومت کے وزیر پارلیمانی امور۔ کسی زمانے میں اور بہت سے دعوؤں کے ساتھ وزیراعظم کا یہ بھی ارادہ تھا کہ وہ برطانیہ کے دار العوام کی طرح خود سوالوں کے جواب دیں گے۔ وہ دعوے اور ارادے تو کب کے ہوا ہوئے مگر معمول کی قانون سازی اور فیصلہ سازی بھی نہیں ہو رہی۔
صدر مملکت کے سالانہ خطاب کا بھی اپوزیشن نے بائیکاٹ کیا اور دیگر معاملات بھی رکے ہوئے ہیں۔ سپیکر ہر کچھ عرصے بعد ایک کمیٹی کی تشکیل کا اعلان کرتے ہیں۔ پہلے ایک کمیٹی پرویز خٹک کی سربراہی میں بنی، پھر اس کے بعد ایک اور کوششش شاہ محمود قریشی کی سرکردگی میں شروع ہوئی۔ اب ایک تازہ اعلان مشیر پارلیمانی امور کی طرف سے کیا گیا ہے۔ کسی پر بھی آگے پیش رفت نظر نہیں آ رہی۔  

جمہوریت کی عملی شکل پارلیمنٹ ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ہمارے ہاں اتنے شدید ڈیڈ لاک کی وجہ کیا ہے؟ اگر اپوزیشن سے پوچھا جائے تو وہ اس کی وجہ وزیراعظم کی جارحانہ اپروچ کو قرار دیتے ہیں۔ ان کے خیال میں جو بھی وزیر اپوزیشن کے ساتھ مفاہمتی طرز عمل اپنائے وہ وزیراعظم کی نظر میں مطعون ٹھہرتا ہے۔ دوسری طرف وزیراعظم اور ان کے قریبی حلقے اپوزیشن کی سیاست کو مفاد پرستی پر مبنی قرار دیتے ہیں جہاں پر ان کا واحد مقصد اپنے خلاف مقدمات کا خاتمہ ہے۔ دونوں طرف کے موقف میں لچک پیدا ہوتی بھی نظر نہیں آتی۔ نتیجہ ہے جمہوریت اِن ڈیڈ لاک۔  
اس ڈیڈ لاک کا ایک بہت بڑا اثر حکومتی سوچ میں بھی ہے جو اب اگلے الیکشن کی طرف دیکھ رہی ہے۔ وزیراعظم اپنی تقریروں میں اگلے سال کو ایک طرح کا الیکشن ایئر کہہ رہے ہیں۔ وزیر اطلاعت اگلی دفعہ دو تہائی اکثریت کی نوید سنا رہے ہیں۔

وزیراعظم اپنی تقریروں میں اگلے سال کو ایک طرح کا الیکشن ایئر کہہ رہے ہیں۔ فائل فوٹو: روئٹرز

دیکھا جائے تو یہ جمہوریت کے لیے بدقسمتی کی بات ہے کہ دو تہائی اکثریت کے بغیر حکومت اپنے آپ کو بے بس محسوس کرے۔ جمہوریت کا مطلب تو وہ راستہ نکالنا ہوتا ہے جس پر زیادہ سے زیادہ لوگوں کا اتفاق ہو نہ کہ ایک پارٹی حتمی اکثریت لے اور اپوزیشن نہ ہونے کے برابر ہو۔ اگر اپوزیشن کا خاتمہ پارٹیوں کا مقصد بن جائے تو یہ جمہوریت کی سب سے بڑی کمزوری ہو گی۔  
اگر یہ ڈیڈلاک اس طرح برقرار رہے تو اس سے عوام کا جمہوریت پر اعتماد بھی متزلزل ہو گا اور اگلا الیکشن انتہائی تلخ فضا میں منعقد ہو گا۔ اور یہ بھی شدید مایوسی کی بات ہو گی اگر ان پانچ سالوں کو قانون سازی کے حوالے سے ضائع کیا گیا۔
لگ ایسے رہا ہے کہ تمام فریق موجودہ ڈیڈ لاک کے بعد ایسے ہی سمجھ رہے ہیں۔ اس سے پہلے بھی اس پارلیمٹ میں جو متفقہ قوانین پاس ہوئے ان میں بیرونی قوتوں کو اپنا کردار ادا کرنا پڑا۔ اگر اب بھی دونوں طرف سے یہ ڈیڈ لاک ختم کرنے کی سنجیدہ کو شش نہ ہوئی تو یہ صورتحال جمہوریت کے لیے مزید نقصان دہ ثابت ہو گی۔ 

شیئر: