Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امریکی صدر کا سٹریٹیجک ذخائر میں سے خام تیل جاری کرنے کا اعلان

امریکہ سمیت دیگر ممالک پانچ کروڑ بیرل خام تیل جاری کریں گے۔ (فوٹو: شٹر سٹاک)
امریکی صدر جو بائیڈن نے تجزیہ کاروں کے خبردار کرنے کے باوجود پیٹرولیم کے سٹریٹیجک ذخائر میں سے خام تیل جاری کرنے کا اعلان کیا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق امریکہ میں پیٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور اوپیک ممالک کو تیل کی پیداوار میں اضافے پر قائل کرنے کی ناکامی کے بعد صدر جو بائیدن نے منگل کو امریکہ کے سٹریٹیجک ذخائر میں سے خام تیل جاری کرنے کی تصدیق کی ہے۔
امریکہ میں تیل کی قیمت سات سال کے عرصے میں بلند ترین سطح پر ہے جس کے باعث کورونا میں کمی کے بعد معیشت کی بحالی ایک مرتبہ پھر خطرے میں پڑ گئی ہے۔
امریکہ سمیت چین، انڈیا، جاپان، جنوبی کوریا اور برطانیہ کے فیصلے کے بعد پانچ کروڑ بیرل خام تیل جاری ہوگا۔
انڈین حکومت نے بھی اپنے سٹریٹیجک ذخائر میں سے 50 لاکھ بیرل تیل جاری کرنے کا اعلان کیا ہے۔
انٹرنیشنل انرجی ایجنسی (آئی ای اے) کے قوانین میں واضح ہے کہ جنگوں یا قدرتی آفات کے باعث مارکیٹ میں آنے والے اتار چڑھاؤ سے نمٹنے کے لیے ذخائر میں سے تیل جاری کیا جا سکتا ہے، لیکن سرمایہ کاری میں اتار اور طلب میں اضافے کے باعث مارکیٹ میں عدم توازن کو درست کرنے کے لیے ایسے اقدامات نہیں کیے جا سکتے۔
امریکی بینک جے پی مورگن کی عہدیدار نتاشا کانیوا نے کہا ہے کہ بین الاقوامی کمپنی آئی ای اے سے  کوآرڈینیٹ کیے بغیر سٹریٹیجک ذخائر میں سے خام تیل کی یکطرفہ طور پر ایمرجنسی فروخت کے فیصلے کی مثال نہیں ملتی۔
انہوں نے کہا کہ گذشتہ 30 سالوں میں صرف تین مرتبہ صدارتی احکامات پر خام تیل کو ہنگامی صورتحال میں جاری کیا گیا ہے، ایسا اقدام امریکہ میں شیل انقلاب سے پہلے لیا گیا تھا جس سے درآمد شدہ تیل پر انحصار کم ہو گیا تھا۔

اوپیک ممالک نے تیل کی یومیہ پیداوار چار لاکھ بیرل پر طے کی ہوئی ہے۔ (فوٹو: شٹر سٹاک)

یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ امریکہ نے اپنے ذخائر میں سے تیل جاری کرنے سے پہلے چین کو بھی ساتھ شامل کیا ہے تاہم چین نے اس اقدام سے متعلق تمام تفصیلات شائع نہیں کی ہیں۔
سرمایہ کاری بینک گولڈ مین ساک نے کہا ہے کہ ذخائر میں سے تیل جاری کرنے کا اقدام صرف عارضی حل فراہم کر سکتا ہے۔ تاہم تیل پیدا کرنے والے مملک کی تنظیم اوپیک پلس کے ردعمل سے بڑا مسئلہ کھڑا ہو سکتا ہے۔ 
تجزیہ کاروں کے خیال میں اوپیک پلس ممالک یورپ میں کورونا کے باعث نقل و حرکت پر عائد نئی پابندیوں سے متعلق زیادہ فکرمند ہیں تاہم صدر جو بائیدن کے فیصلے سے انہیں تیل کی طے شدہ  پیداوار کی مقدار کا جائزہ لینے کا موقع ملا ہے۔
اوپیک پلس ممالک نے تیل کی یومیہ  پیداوار چار لاکھ بیرل پر طے کی ہوئی ہے۔
خیال رہے کہ رواں ہفتے سے یورپی ملک آسٹریا نے مکمل لاک ڈاؤن نافذ ہے، نیدر لینڈز میں جزوی لاک ڈاؤن ہے جبکہ جرمنی مختلف علاقوں میں لاک ڈاؤن نافذ کرنے کا ارادہ کر رہا ہے۔ اٹلی نے بھی غیر ویکسین شدہ افراد کے لیے سخت پابندیاں عائد کرنے کا کہا ہے۔ امریکہ میں بھی روزانہ کی بنیاد پر ایک لاکھ نئے کورونا کیسز سامنے آئے ہیں۔
کورونا سے متعلق نئی پابندیوں کے بعد معاشی بحالی میں ممکنہ سست روی کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
اس تناظر میں اوپیک پلس ممالک کا خیال ہے کہ تیل کی طلب میں اس قدر اضافہ نہیں ہوا کہ پیداوار کو بڑھایا جائے۔

یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ امریکہ نے اپنے ذخائر میں سے تیل جاری کرنے سے پہلے چین کو بھی ساتھ شامل کیا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

خیال رہے کہ خام تیل کی عالمی سطح پر مؤثر قیمت 75 سے 90 ڈالر کے درمیان سمجھی جاتی ہے جو تیل پیدا کرنے والوں کے لیے مناسب آمدنی کا ذریعہ ہے جبکہ اس سے طلب کو بھی نقصان نہیں پہنچتا اور نہ ہی توانائی کے دیگر ذرائع میں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔
امریکہ اور دیگر ممالک کے اپنے ذخائر میں سے تیل جاری کرنے کے اعلان کے بعد تیل کی قیمت 80 ڈالر تک بڑھی ہے۔

شیئر: