Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’جج کو فون‘،لاہور ہائیکورٹ نے ڈپٹی کمشنر کی سزا پر عمل درآمد روک دیا

چیف جسٹس نے ایڈوکیٹ جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’کیا آپ کے افسران کورٹس کو چلانا نہیں چاہتے؟' (فوٹو: سوشل میڈیا)
پاکستان کے صوبہ پنجاب کی ہائیکورٹ نے ایک صارف عدالت کی جانب سے ضلع منڈی بہاوالدین کے ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر کو دی جانے والی تین، تین ماہ قید کی سزا پر عمل درآمد روک دیا ہے۔ 
دونوں افسران نے گرفتاری سے بچنے کے لیے لاہور ہائی کورٹ میں سزاؤں کے خلاف اپیل دائر کی تھی۔
سوموار کو چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے کیس کی سماعت کے دوران سخت ریمارکس دیے۔ چیف جسٹس نے ایڈوکیٹ جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’کیا آپ کے افسران کورٹس کو چلانا نہیں چاہتے؟‘
’آپ کے ایک افسر نے کلرک کو بھیج کر فاضل جج کی بے عزتی کروائی۔‘
عدالت میں ڈپٹی کمشنر منڈی بہاوالدین طارق بسرا بھی پیش ہوئے، جن کو یہ سزا سنائی گئی تھی۔ عدالت نے ان سے استفسار کیا کہ آپ نے جج کو کال کیوں کی؟ ’تمھیں عدالت نے بلایا تم نے کس حیثیت سے جج کو فون کیا؟
ڈپٹی کمشنر نے عدالت کو بتایا کہ ’میں اس دن چھٹی پر تھا میرا اس کیس سے دور دور کا بھی تعلق نہیں۔‘ تاہم عدالت نے ان کے جواب پر اطمینان کا اظہار نہیں کیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’یہاں ہر بندہ کہتا ہے کہ میرے سے بڑا عقل مند نہیں ہے۔ قانون کا اس شخص کو پتا نہیں ہے اور وہ بیٹھ کر بڑی بڑی باتیں کر رہا ہے۔‘
اس دوران چیف جسٹس امیر بھٹی کا ایڈووکیٹ جنرل سے بھی مکالمہ ہوا۔
انہوں نے کہا ’اگر عدالت قانون کے برعکس کام کر رہی تھی تو آپ اپیل میں آ جاتے یہ تو نہیں کہ آپ عدالت میں جا کر اختیار استعمال کرنا شروع کر دیں۔‘
جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ ’ہم نے مل کر اس سسٹم کو چلانا ہے ایسے تو یہ سارا نظام تباہ ہو جائے گا، میں عدالت کی آبزرویشن کی تائید کرتا ہوں۔‘
ابتدائی سماعت کے بعد عدالت نے صارف عدالت کی سزا معطل کرتے ہوئے فریقین کو نوٹس جاری کر دیے۔ 

ڈپٹی کمشنر کو سزا کیوں ہوئی؟  


صارف عدالت نے تینوں ملزمان پر فرد جرم عائد کرتے ہوئے انہیں توہین عدالت کے قانون کے تحت تین تین مہینے کی سزا سنا دی: فائل فوٹو پکسابے

ضلع منڈی بہاوالدین کی ایک صارف عدالت میں ایک شہری محمد عاصم کا کیس چل رہا تھا جس میں اسسٹنٹ کمشنر کو عدالت نے نوٹس کر رکھے تھے۔
صارف عدالت کے جج راؤ عبدالجبار خان کے لکھے گئے سات صفحات کے فیصلے کے مطابق ’ایک شخص وکلا کے یونیفارم میں آیا اور اس نے اپنا تعارف رانا محبوب کے نام سے کروایا اور آتے ہی اسسٹنٹ کمشنر کو کیے گئے نوٹسز واپس کرنے کا مطالبہ کیا۔‘
’اس دوران اس کا لہجہ انتہائی بدتمیزی والا تھا۔ جب وہ بدتمیزی سے باز نہیں آیا تو عدالت نے اسے توہین عدالت کے نوٹس جاری کر دیے۔‘
جج نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ ’ان نوٹسز کے بعد اسسٹنٹ کمشنر امتیاز علی خود عدالت میں آ گئے اور عدالت سے معاملہ رفع دفع کرنے کی درخواست کی۔‘
عدالتی فیصلے کے مطابق ’امتیازعلی کے لہجے سے عیاں تھا کہ انہوں نے خود ہی رانا محبوب کو بھیجا تھا کہ وہ عدالت میں آ کر بدتمیزی کریں۔'
فیصلے میں لکھا گیا کہ 'اسی دوران میرے موبائل فون کی گھنٹی بجی تو دوسری طرف سے کسی نے پنجابی زبان میں کہا کہ میں طارق بسرا بات کر رہا ہوں جو کہ ڈپٹی کمشنر تھے۔ اس کے بعد انہوں نے بھی وہی باتیں دہرائیں جو اسسٹنٹ کمشنر دہرا رہے تھے۔ یعنی یہ سوچی سمجھی سازش تھی جس میں یہ تمام افسران شامل تھے۔ جس کے بعد دونوں افسران کو بھی توہین عدالت کے نوٹس جاری کر دیے گئے۔‘
صارف عدالت نے اگلی پیشی پر تینوں ملزمان پر فرد جرم عائد کرتے ہوئے انہیں توہین عدالت کے قانون کے تحت تین تین مہینے کی سزا سنا دی۔
عدالت نے ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر کو کمرہ عدالت سے گرفتار کرنے کے لیے پولیس کو حکم دیا اور بعد ازاں ڈی پی او کو طلب کیا لیکن دونوں افسران گرفتاری سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئے اور لاہور پہنچ کر ہائیکورٹ سے رجوع کیا۔ 

شیئر: