Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’’جہنم ہے وہ گھر جس میں عورت کی عزت نہ ہو‘‘

ناصر کے لہجے سے ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے اس کو صدیوں سے کسی غمگسار کی تلاش تھی جس کے سامنے وہ اپنا دل کھول کے رکھ دے، اسے وہ غمگسار آج میری صورت میں مل گیا تھا

دانیا ل احمد ۔ دوحہ

سردیوں کی ایک شام تھی، ہم حسب معمول کرکٹ میچ کھیلنے کے بعدکھانا کھانے کے لئے ریسٹورنٹ جانے کی تیاری کر رہے تھے کہ اچانک کچھ دوستوں نے یہ کہہ کر منع کر دیا کہ آج وہ کھانا اپنے گھر والوں کے ساتھ کھائیں گے۔ پھر سب لوگ آہستہ آہستہ اپنے گھروں کو چلے گئے۔ آخر میں ،میں اور میرا دوست ناصر بچ گئے، ناصر قطر میں ملازمت کرنے آیا تھا اور یہاں اکیلا رہتا تھا۔ اس کے گھر والے پاکستان میں تھے۔ ناصر میدان کے بیچوں بیچ ایک بڑے سے پتھر پر خاموش بیٹھا تھا۔ میں نے اسے مخاطب کر کے کہاکہ یار ناصر! تمہارا بھی دل تو بہت چاہتا ہوگا اپنے گھر والوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانے کے لئے ، ہے ناں؟ وہ امی کے ہاتھ کا بنا ہوا کھانا، وہ ابا کی باتیں، وہ بہن بھائیوں کی شرارتیں اور وہ دسترخوان پر سب کا ایک ساتھ بیٹھنا،تو مِس تو کرتا ہوگا یہ سب؟ میری بات سن کر ناصر کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور وہ کہنے لگاکہ کیا بات کرتے ہو دوست، یہ تو پھر پردیس ہے، ہم نے تو اپنے گھر میں رہتے ہوئے بھی کبھی ایسا خوشگوار ماحول نہیں دیکھا۔یہ کہہ کر وہ خاموش ہو گیا اور ہم دونوں ریسٹورنٹ کی جانب چل دیئے۔ وہاں پہنچ کر میں نے ناصر سے کہاکہ مجھے تمہاری بات کچھ سمجھ نہیں آئی۔ میرا مطلب تمہارے گھر میں کوئی پرابلم ہے کیا؟ ہم دونوں میں بے تکلفی بہت تھی اس لئے میں نے بے جھجک اس سے یہ سوال پوچھ لیا۔ ناصر نے ایک گہری سانس لی اور کہاکہ بڑی لمبی کہانی ہے،یہاں سے چلوتو آرام سے بیٹھ کر سناؤں گا ۔ ناصر کے لہجے سے ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے اس کو صدیوں سے کسی غمگسار کی تلاش تھی جس کے سامنے وہ اپنا دل کھول کے رکھ دے، اسے وہ غمگسار آج میری صورت میں مل گیا تھا۔ کھانا کھانے کے بعد میں ناصر کے ساتھ اس کے گھر چلا گیا۔ میری فرمائش پر اس نے چائے بنائی اور پھر اپنی کہانی سنانے لگا، میری ماں حلیمہ بی بی کراچی کے ایک پرانے علاقے کھارادر میں اپنی ماں، ایک بھائی اور دو بہنوں کے ساتھ رہا کرتی تھیں۔ بھائی اور ایک بڑی بہن کی شادی ہو جانے کے بعد میری امی کے لئے رشتے آنا شروع ہوئے۔ بہت اچھے اور بڑے گھروں سے رشتے آئے لیکن نانی اور ماموں نے منع کردیا کیونکہ ہمارے خاندان میں رشتہ طے پانے کا صرف ایک ہی معیار تھا اور وہ تھا خون کی رشتہ داری۔ لڑکی یا لڑکے کا کردار، تعلیم و تربیت، مالی حالت اور مستقبل ہمارے یہاں کچھ معنی نہ رکھتے تھے۔ کچھ عرصے کے بعد اسی معیار کے مطابق امی کا رشتہ ان کے ماموں زاد’’ اصغر ‘‘یعنی میرے ابا سے طے کر دیا گیا۔ ابا ایک فیکٹری میں معمولی سی ملازمت کرتے تھے ،آمدنی اتنی نہ تھی کہ گھر کی کفالت کر سکتے۔ اسی وجہ سے شادی کے بعد اماں کی زندگی میں خوشیوں کی بجائے مشکلات کا کبھی نہ ختم ہونے والا طویل سلسلہ شروع ہو گیا۔ گھر کا سارا سودا سلف ادھار پر لیا جاتا اور مہینے کے اختتام پر ادھار چکانے کے لئے پیسے نہ ہونے پر لڑائی جھگڑا، گالی گلوچ اور لعن طعن ہمارے گھر کا دستور بن گیا۔نوبت یہاں تک جاپہنچی کہ ابا اکثر اماں اور ہم بہن بھائیوں کو بری طرح پیٹ کر ماموں کے دروازے پر پھینک کر چلے جاتے تاکہ ماموں ہماری یہ حالت دیکھ کر خود ہی ہمارا سارا ادھار چکا دیں۔ ماموں ویسے بھی رحمدل انسان تھے اور بہنوں سے تو انہیں محبت بھی بہت تھی اس لئے وہ ہمیشہ ہمارے کام آتے اور ہماری ہر ممکن مدد کرتے۔ ہمارے والدین آپسی جھگڑوں اور اختلافات میں ایسے الجھے کہ اولاد کی تعلیم و تربیت کا فریضہ انہیں یاد ہی نہ رہا۔ ماں باپ کے ہوتے ہوئے بھی ہماری زندگی یتیموں اور لاوارثوں کی طرح گزری۔ خاندان میں کوئی بھی ہم سے تعلق رکھنا پسند کرتا تھا نہ ہی ہمارے گھر سے کوئی رشتہ جوڑنا چاہتا تھا۔ میرا سب سے بڑا بھائی عدیل جادو ٹونے کے چکر میں پڑ کر اپنی جان گنوا بیٹھا۔ اس سے چھوٹا بھائی محسن غلط صحبت کی وجہ سے منشیات اور چوری چکاری کے رستے پہ چل پڑا اور پولیس مقابلے میں مارا گیا۔ ایک بہن نے اپنی مرضی سے پڑوس میں شادی کر لی اور دوسری کو شادی کے چند ماہ بعد ہی طلاق ہو گئی۔ بچ گیا میں، تو میرے کچھ رشتہ داروں اور دوستوں نے مجھ پر ترس کھاتے ہوئے مجھے یہاں بھجوا دیا تاکہ کچھ کما کر اپنی بوڑھی بیوہ ماں کا سہارا بن سکوں۔ یہ تھی میری کہانی، نہ صرف میری بلکہ ہر اس گھر کی کہانی جس میں عورت کی عزت نہیں کی جاتی۔ جو ماں باپ اپنے ذاتی جھگڑوں کو اولاد سے زیادہ اہمیت دیں، ان کا گھرجہنم بن جاتا ہے اور ان کی اولاد اس جہنم سے فرار حاصل کرنے کے لئے باہر کی دنیا کو جنت نظیر مان لیتی ہے، چاہے وہ دنیا کتنی ہی بھیانک کیوں نہ ہو۔ اس کے بعد ناصر کافی دیر مجھ سے گلے لگ کر روتا رہا اور کہتا رہا، میرے لئے تو یہ پردیس کسی نعمت سے کم نہیں ۔مجھے یہاں آ کر تجھ جیسا سچا دوست، ایک اتنا خوبصورت رشتہ ملا ہے ورنہ اپنے دیس میں تو میں نے رشتوں کا بہت خوف ناک روپ دیکھا ہے۔

شیئر: