Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

راہُل کے خواب اور مودی کا انتظار: معصوم دہلوی کا کالم

نریندر مودی سنہ 2014 سے انڈیا کے وزیراعظم ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
اب یہ سال بھی ختم ہونے کو ہے اور اگر آپ یہ سوچ رہے ہوں کہ سال نو میں انڈیا کے سیاسی منظرنامے میں کوئی خاص تبدیلی آئے گی، تو ہم تو یہ ہی کہیں گے کہ خواب دیکھنا اچھی بات ہے لیکن خواب خود بہ خود پورے نہیں ہوا کرتے۔ بس دل کی تسلی کے لیے دیکھنے ہوں تو دیکھتے رہیے۔ وقت اچھا گزر جائے گا۔
تو انڈیا کی سیاسی قیادت کے لیے ہمارے کچھ مشورے ہیں۔ ویسے تو یہ لوگ خود بہت قابل ہوتے ہیں لیکن ہو سکتا ہے کہ ہماری بات ان میں سے کسی کو پسند آجائے۔
شروع ظاہر ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی سے ہی کرتے ہیں۔ وہ سنہ 2014 سے وزیراعظم ہیں اور فی الحال لگتا ہے کہ آٹھ دس سال تو کہیں ہلنے والے نہیں ہیں۔ تو سر آپ ہماری صرف ایک بات مان لیجیے۔
آپ نے چند روز قبل ایک بین الااقوامی آن لائن کانفرنس سے امریکی صدر جو بائیڈن کی موجودگی میں خطاب کرتے ہوئے جمہوریت کی جڑیں مضبوط کرنےکی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ آزاد عدلیہ اور فری میڈیا جمہوریت کے لیے بہت ضروری ہیں۔
سر، آپ جمہوریت کو مضبوط کرنے کے لیے نئے سال کا آغاز ایک پریس کانفرنس سے کیجیے۔ آپ گذشتہ سات آٹھ برسوں سے بہت مصروف تھے اس لیے کرنا بھول گئے ہوں گے ورنہ جمہوریت میں یہ کوئی بھولنے والی چیز ہے نہیں۔
پریس کانفرنس میں صحافیوں کو آپ سے آمنے سامنے سوال پوچھنے کا موقع ملے گا جیسا برطانیہ اور امریکہ میں ہر دو چار دن میں ہوتا رہتا ہے۔ آپ سال میں دو ہی رکھ لیجیے، ہماری گارنٹی ہے کہ اس چھوٹے سے قدم سے ملک میں جمہوریت مضبوط ہوگی کیونکہ جوابدہی کے بغیر جمہوریت نامکمل ہے اور میڈیا کی نظر کی فکر ہو تو حکومتیں بہت سے ایسے کام کرنے سے بچتی ہیں جو انہیں نہیں کرنے چاہئیں۔
آپ کو چھوٹی سی مثال دے دیں۔ گذشتہ برس دسمبر میں جب برطانیہ میں عام لوگوں کے آپس میں ملنے جلنے اور پارٹی کرنے پر بہت سی پابندیاں عائد تھیں تو وہاں کے وزیراعظم کے دفتر میں بظاہر ایک کرسمس پارٹی ہوئی۔ میڈیا کو خبر ہوگئی اور حکومت کے لیے اب جان چھڑانا بھاری پڑ رہا ہے۔

راہل گاندھی کو نریندر مودی کو ہٹانے کے لیے زیادہ محنت کی ضرورت ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

سیاسی پارٹیوں کی وجہ سے حکومتیں گرتی ہوئی تو آپ نے بہت دیکھی ہوں گی لیکن اگر نوبت وہاں تک پہنچتی ہے تو شاید یہ دنیا کی پہلی کرسمس پارٹی ہوگی جس کی وجہ سے کسی وزیراعظم کی نوکری گئی ہو۔ 
بات سننے میں بہت چھوٹی سی لگتی ہے لیکن اگر پارٹی ہوئی تھی، اور بعد میں اسے چھپانے کے لیے جھوٹ بھی بولا گیا، اور اگر یہ جھوٹ پکڑا گیا تو پھر کچھ بھی سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ سینیئر افسران کے استعفوں سے جان بچ جائے لیکن یہ جوابدہی کی ایک بہترین اور تازہ مثال ہے۔ جو قانون ہم پر لاگو ہوتے ہیں وہ سب پر ہونے چاہئیں۔
دوسرا مشورہ راہل گاندھی کے لیے ہے جو وزیراعظم نریندر مودی کو ان کے عہدے سے ہٹانے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ سر آپ سے کیا کہیں۔ جیسا ہم نے پہلے بھی کہا، جنرل مشورہ تو یہ ہی ہے کہ خواب خود بہ خود پورے نہیں ہوتے۔ جتنا بڑا خواب اتنی زیادہ محنت کی ضرورت۔ یہ سادہ سا فارمولا ہے۔
اس لیے اگر آپ واقعی سنجیدہ ہیں تو بس یہ سمجھ لیجیے کہ سیاست ایک فل ٹائم کام ہے، یہ ایک بزنس کی طرح ہے جسے جمانے کے لیے آپ کو 24 گھنٹے لگنا پڑتا ہے۔ آپ کہیں گے ہمارا تو پرانا فیملی بزنس ہے، ہمارے بزرگوں نے جما کر دیا تھا اور یہ سچ بھی ہے۔ لیکن اب سیاست کے رولز بدل گئے۔ آپ برا نہ مانیں تو کانگریس پارٹی اور اس کے لیڈر ’پیجر‘ کی دنیا میں جی رہے ہیں اور یہ ہائی ڈیفینیشن میں ویڈیو کالنگ کا زمانہ ہے۔
اگر آپ کو خبر نہ ہوئی ہو تو پارلیمان میں اپنے ارکان کی گنتی کرا لیجیے۔ آج کل ڈھونڈنے سے بھی نظر نہیں آتے۔

بہت سے سیاسی رہنما کانگریس کے بغیر ایک ایسا محاذ بنانا چاہتے ہیں جو بی جے پی کا مقابلہ کرسکے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

نئے سال کے جشن کے بعد وقت ملے تو یہ بھی سوچیے گا کہ آپ کی پارٹی کے زیادہ تر سینیئر لیڈر ناراض کیوں ہیں؟ کیوں وہ بغاوت پر اترے ہوئے ہیں اور ان کے مطالبات کیا ہیں؟
بھائی وہ صرف یہ کہہ رہے ہیں کہ ہر الیکشن میں شکست کے بعد شکست کی وجہ معلوم کرنے کے لیے کمیٹی قائم کرنے کا وقت بہت عرصہ پہلے گزر چکا ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ کانگریس کو فل ٹائم قیادت کی ضرورت ہے جو یا تو آپ خود فراہم کیجیے یا کسی اور کو کرنے دیجیے۔ نہ آپ صاف چھپتے ہیں اور نہ سامنے ہی آتے ہیں۔ یا تو خود پارٹی کے صدر بنیے یا کسی اور کو بننے دیجیے۔ بس ایک بار یہ طے کر لیجیے کہ فل ٹائم سیاست کرنی ہے یا نہیں۔ اگر آپ کا پھر جواب یہ ہی ہے کہ کرنی بھی ہے اور نہیں بھی، تو پھر وہی ہوتا رہے گا جو گذشتہ آٹھ برسوں سے ہو رہا ہے۔
ایک چھوٹا سا مشورہ ان رہنماؤں کے لیے بھی ہے جو کانگریس کے بغیر ایک ایسا محاذ بنانا چاہتے ہیں جو بی جے پی کا مقابلہ کرسکے۔ بھائی آزاد ملک ہے، خواب دیکھنے کی آپ کو بھی آزادی ہے۔ لیکن مرا ہوا ہاتھی بھی سوا لاکھ کا ہوتا ہے۔ کانگریس کی حالت خراب ضرور ہے لیکن بی جے پی کے علاوہ وہ واحد قومی پارٹی ہے جس کی تھوڑی بہت موجودگی ہر صوبے میں نظر آتی ہے۔
یہ کوشش مغربی بنگال میں بی جے پی کو ہرانے کے بعد ممتا بنرجی کرنے نکلیں تھیں، لیکن دوسری علاقائی جماعتوں نے انہیں جلدی ہی یہ احساس دلا دیا کہ اکیلے چلنا سننے میں اچھا لگتا ہے لیکن جب تک کارواں نہ بنے، اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے اور کارواں بنتا ہے جب منزل تک بہ حفاظت پہنچنے کا کوئی امکان ہو۔

نریندر مودی نے چند روز قبل ایک بین الااقوامی آن لائن کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جمہوریت کی جڑیں مضبوط کرنےکی ضرورت پر زور دیا۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

ورنہ لوگ کسی دوسرے قافلے کا انتظار کرتے ہیں۔
اس لیے حزب اختلاف والوں، آپ پہلے ایک حکمت عملی تیار کیجیے۔ بی جے پی کا ایک واضح سیاسی نظریہ ہے، نہ وہ اس سے شرماتی ہے اور نہ پیچھے ہٹتی ہے۔ لیکن حزب اختلاف کا متبادل نظریہ کیا ہے، کسی کو نہیں معلوم۔ تو ووٹر سے پھر آپ یہ امید کیوں کرتے ہیں کہ وہ آپ کو ووٹ دے؟
آپ ووٹر کو بتائیے کہ یہ ہمارا نیا پیغام ہے اور یہ ہمارا رہنما ہے۔ رہنماؤں کی کمی نہیں ہے، بس ان کے لیے جگہ بنانے کی ضرورت ہے۔
لیکن نئی بوتل میں پرانی شراب نہیں چلے گی۔

شیئر: