Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بنگلہ دیش 50 برسوں میں پاکستان سے زیادہ خوشحال کیسے ہوگیا؟

پچھلے 50 سال کے دوران بنگلہ دیش ترقی میں پاکستان سے بہت آگے نکل گیا ہے (فوٹو: اے ایف پی)
سقوط ڈھاکہ کے 50 سال پورے ہونے پر پاکستان اور بنگلہ دیش کی ترقی اور کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ کبھی مشرقی پاکستان کہلانے والا بنگلہ دیش معاشی میدان میں اب پاکستان سے بہت آگے نکل گیا ہے۔
ورلڈ بینک کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار سے موازنہ کیا جائے تو گذشتہ سال بنگلہ دیش کی فی کس آمدنی 1969 ڈالر رہی جب کہ پاکستان کی 1194 ڈالر تھی۔
پچھلے سال بنگلہ دیش کی مجموعی قومی پیداوار 324 ارب ڈالر رہی، جب کہ پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار 264 ارب ڈالر کے قریب ریکارڈ کی گئی۔ اسی طرح پاکستان کی سالانہ برآمدات پچھلے سال تقریباً 25 ارب ڈالر تھیں جبکہ بنگلہ دیش کی برآمدات گزشتہ مالی سال میں 45 ارب ڈالر سے زائد رہیں۔
ورلڈ بینک کے مطابق پاکستان میں لوگوں کی اوسط عمر 67 برس ہے جبکہ بنگلہ دیش میں 72 برس ہے۔
اس حوالے سے اردو نیوز نے وجوہات جاننے کے لیے پاکستان کے پانچ صدور کے ساتھ کام کرنے والے معروف بیوروکریٹ روئیداد خان، سابق سیکرٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) نعیم خالد لودھی  اور تجزیہ کار اور مصنف ڈاکٹر مہدی حسن سے بات کی۔

کیا بنگلہ دیش میں قومی اتحاد اور جمہوریت نے کمال کیا؟

بطور اعلیٰ سرکاری افسر سقوط ڈھاکہ کو قریب سے دیکھنے والے روئیداد خان کہتے ہیں کہ بنگلہ دیش اس وقت ترقی میں آسمان تک پہنچ گیا ہے۔ ان کی برآمدات، ان کا نظام حکومت اور معاشی استحکام قابل رشک ہے۔
اس کی وجوہات بتاتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ’بنگلہ دیشن میں صرف بنگالی زبان بولنے والے رہتے ہیں وہ ایک متحد قوم ہے، دوسری طرف پاکستان مختلف لسانی قومیتوں میں بٹا ہوا ہے۔ کوئی پنجابی بولتا ہے تو کوئی سندھی، کوئی پٹھان ہے تو کوئی بلوچی۔ قوموں کی ترقی میں قومی اتحاد ایک بڑی چیز ہے۔‘
روئیداد خان کے نزدیک بنگلہ دیش کی ترقی کی دوسری اہم وجہ دفاعی مسائل کا نہ ہونا اور وزیراعظم کے پاس مکمل اختیارات کا ہونا ہے۔ سول بالادستی کے باعث لوگ وہاں احساس محرومی کا شکار نہیں ہوتے۔

روئیداد خان کے مطابق شیخ مجیب الرحمان کو مغربی پاکستان سے کوئی دلچسپی نہیں تھی (فوٹو: اے ایف پی)

ان کے مطابق ’وہ جدا ہو کر ہم سے بہتر ہو گیا ہے۔‘

پاکستان کیوں ٹوٹا تھا؟

کئی کتابوں کے مصنف روئیداد خان کہتے ہیں کہ انہوں نے انہوں نے اعلیٰ سرکاری افسر کے طور پر بنگلہ دیش کا قیام قریب سے دیکھا اور اس کے اہم کرداروں سے براہ راست ملاقاتیں بھی کیں۔
روئیداد خان نے بتایا کہ جب مارچ 1971 میں ڈھاکہ میں فوجی ایکشن شروع ہوا تو وہ اس وقت مشرقی پاکستان میں ہی تھے لوگ بہت پریشان تھے اور پاکستان سے نفرت بڑھ چکی تھی۔
ان کے بقول ’بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب، پیپلز پارٹی کے مغربی پاکستان سے کامیاب رہنما ذوالفقار علی بھٹو اور صدر جنرل یحییٰ خان تینوں پاکستان ٹوٹنے کے ذمہ دار تھے کیونکہ تینوں اپنی اپنی وجوہات کی بنا پر متحدہ پاکستان کے مخالف تھے۔
’بھٹو کو قبول نہ تھا کہ وہ شیخ مجیب کو اقتدار دے کر خود اپوزیشن لیڈر بنیں، شیخ مجیب کو مغربی پاکستان میں کوئی دلچسپی نہیں رہی تھی اور جنرل یحییٰ کو ڈر تھا کہ متحدہ پاکستان کا اقتدار شیخ مجیب کو ملا تو فوج کا ہیڈ کوارٹر ڈھاکہ منتقل ہو جائے گا اور مغربی پاکستان میں بھی ادارے کا کنٹرول ختم ہو جائے گا۔‘
سنہ 70 کے الیکشن سے قبل روئیداد خان پاکستان کی وزارت اطلاعات میں سیکریٹری تھے اور اس طرح ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی براہ راست ان کی نگرانی میں ہوتے تھے۔

’ذوالفقار بھٹو شیخ مجیب کو اقتدار نہیں دینا چاہتے تھے‘ (فوٹو: اے ایف پی)

ان کا کہنا تھا کہ الیکشن سے قبل انہیں صدر جنرل یحییٰ خان نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو سرکاری ریڈیو اور ٹی وی پر براہ راست عوام سے مخاطب ہونے کا موقع دیں، تو وہ ڈھاکہ میں عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمن سے ملے اور انہیں بتایا کہ آپ کو ہم آدھا گھنٹہ سرکاری ٹی وی اور ریڈیو پر دے رہے ہیں، آپ نے جو پیغام ووٹرز کو دینا ہے آپ دے دیں۔
ان کے مطابق ’جب میں وہاں پہنچا تو شیخ مجیب نے اپنی تقریر کا سکرپٹ تیار کر رکھا تھا میں نے دیکھا کہ اس میں کئی بار مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش کے نام سے کہا گیا تھا تو میں نے انہیں کہا کہ ابھی بنگلہ دیش تو نہیں بنا آپ اسے سرکاری میڈیا پر مشرقی پاکستان ہی کہیں، مگر انہوں نے کہا کہ بنا ہے یا نہیں بنا میں تو اسے بنگلہ دیش ہی کہوں گا۔ اس پر میں نے راولپنڈی میں اعلیٰ قیادت سے رابطہ کرکے آگاہ کیا تو مجھے ہدایت دی گئی کہ شیخ مجیب کو اپنی مرضی کی تقریر کرنے دیں اور انہوں نے بنگلہ دیش کا لفظ ہی استعمال کیا اور وہ اسی طرح ریڈیو ٹی وی پر چلا۔‘
روئیداد خان کے مطابق اگر پاکستان بچانا تھا تو فوجی آپریشن 1970 کے عام انتخابات سے پہلے کرنا چاہیے تھا کیونکہ انہوں نے دیکھا کہ الیکشن میں بے مثال کامیابی کے بعد شیخ مجیب کی آنکھوں کی چمک بدل گئی تھی اور وہ کھلے عام بنگلہ دیش مانگتے تھے۔ گویا بات بہت آگے بڑھ چکی تھی اور فوجی آپریشن بھی پاکستان کو نہیں بچا سکتا تھا۔
ان کے خیال میں انتخابات سے قبل فوجی ایکشن ہوتا تو شیخ مجیب کو متحدہ پاکستان کے ساتھ چلنے پر راضی کیا جا سکتا تھا۔
روئیداد خان کے مطابق جب 16 دسمبر 1971 کو بنگلہ دیش بن گیا اور انڈین وزیراعظم اندرا  گاندھی نے یک طرفہ غیر مشروط جنگ بندی کا اعلان کر دیا تو وہ جنرل یحییٰ سے ملے اور انہیں کہا کہ مشرقی پاکستان میں تو پاکستان فوجی لحاظ سے انتہائی مشکل صورتحال کے باعث نہ لڑ سکا آپ انڈیا کو مغربی پاکستان کی طرف سے سبق کیوں نہیں سکھاتے اور جنگ بندی پر کیوں آمادہ ہیں، تو صدر یحییٰ نے جو جواب دیا اس نے انہیں حیران کر دیا۔
’صدر یحیی نے مجھے کہا چھوڑو یار ان کالے بنگالیوں کے لیے ہم مغربی پاکستان کو کیوں خطرے میں ڈالیں۔‘

گذشتہ سال بنگلہ دیش کی فی کس آمدنی 1969 ڈالر رہی جب کہ پاکستان کی 1194 ڈالر تھی (فوٹو: مہدی حسن)

71 کی جنگ کے بارے میں عام غلط فہمیاں

سابق سیکریٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) نعیم خالد لودھی کہتے ہیں کہ سقوط ڈھاکہ کی ذمہ دار ہماری غلطیاں بھی ہیں تاہم دشمن کا کردار بھی بہت گھناؤنا رہا، جسے اکثر نظر انداز کیا جاتا ہے۔
ان کے مطابق یوں تو انڈیا ہمیشہ سے پاکستان کو دولخت کرنا چاہتا تھا تاہم آخری دو سال اس نے پاکستان کو توڑنے کی بھرپور تیاری کی اور متنفر بنگالیوں کو تربیت دے کر گوریلا فورس بنائی اور پاکستان کے خلاف استعمال کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ غلط فہمی ہے کہ 1971 کی جنگ صرف 13 دنوں کی تھی بلکہ اپریل سے انڈیا نے کارروائیاں شروع کر دی تھیں پھر اگست میں باقاعدہ حملے شروع ہو گئے تھے گویا کئی ماہ پر محیط ایک جنگ تھی ۔
اس کے علاوہ دوسری غلط فہمی یہ ہے کہ پاکستان کی 90 ہزار فوج نے سرنڈر کیا تھا۔ اب خود انڈین مصنفین کی کتابیں آ چکی ہیں جن میں مانا گیا ہے کہ مشرقی پاکستان میں ٹوٹل فوج 34 ہزار تھی وہ بھی پیرا ملٹری فورس ملا کر باقی سب سویلین تھے۔
اس کے علاوہ ریپ کے کیسز کے حوالے سے بھی بہت زیادہ مبالغہ کیا گیا، اب سب مانتے ہیں وہ جھوٹ تھا۔ دراصل انڈیا نے پاکستان توڑنے کی سازش کی تھی۔
جنرل نعیم خالد کے مطابق سقوط ڈھاکہ بہت افسوسناک داغ ہے ہماری ملٹری پر بھی اور سیاسی قیادت کی اہلیت پر بھی، کیونکہ اگر ایک ملک کے دو برابر حصے ہوں اور درمیان ایک ہزار میل کا فاصلہ ہو جس میں دشمن بیٹھا ہو تو یہ دو حصے کنفڈریشن بن کر رہ سکتے ہیں فیڈریشن بن کر نہیں۔

پاکستان اور بنگلہ دیش کے حالات میں زمین آسمان کا فرق ہے

جنرل نعیم خالد لودھی کے مطابق اگر بنگلہ دیش نے زیادہ ترقی کی ہے تو ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ ہمارے اور ان کے حالات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن انڈیا کا سامنا ہے۔
پاکستان کو کشمیر کے مسئلے کا حل بھی نکالنا ہے اسے فلسطینیوں کے حقوق کی آواز بھی بلند کرنی ہے۔

پچھلے سال بنگلہ دیش کی مجموعی قومی پیداوار 324 ارب ڈالر رہی، جب کہ پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار 264 ارب ڈالر کے قریب ریکارڈ کی گئی (فوٹو: ڈھاکہ ٹریبیون)

’ یہ بھی دیکھیں کہ بنگلہ دیش کے پڑوس میں افغانستان بھی نہیں، جہاں بڑی بڑی طاقتیں نبردآزما ہوں۔ ہمیں تو سزا بھی دی جاتی ہے افغانوں سے دوستی کی، فلسطینیوں کی حمایت کی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اگر مقصد صرف خوشحال ہونا ہے تو وہ کامیاب ہیں مگر حق کے لیے کھڑا ہونا اور دنیا بھر میں مسلمانوں کے حقوق کی آواز بننا بغیر قیمت کے نہیں ہوتا۔
ان کے مطابق آج دنیا میں پاکستان کا ذکر ہر بڑے بین الاقوامی معاملے میں آتا ہے جغرافیائی اور سیاسی لحاظ سے مگر بنگلہ دیش کا اس طرح ذکر نہیں ہوتا گویا پاکستان کی دنیا میں ایک بڑی پہچان بھی ہے۔
’آج اگر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام سے اسلامی ہٹا دیں، ایٹم بم نہ ہو اور کشمیر چھوڑ دیں تو پاکستان بھی بنگلہ دیش سے زیادہ ترقی کر جائے گا۔‘
تاہم جنرل نعیم خالد تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان کے کئی مسائل اس کے اپنے پیدا کردہ بھی ہیں جیسا کہ جمہوریت کو نہ پنپنے دینا، ایک دوسرے کا گلا کاٹنا اور قومی اتحاد کا نہ ہونا وغیرہ۔

پاکستان تاریخی طور پر متحد قوم نہ بن سکی

تجزیہ کار اور مصنف ڈاکٹر مہدی حسن کے مطابق بنگال کی ترقی کی وجہ یہ ہے کہ وہ ایک تاریخی قوم ہیں۔ دوسری طرف پاکستان تاریخی طور پر ایک قوم نہیں۔ قائداعظم محمد علی جناح نے اسے قوم بنانے کی کوشش کی مگر انہیں وقت نہ ملا۔
ان کے خیال میں پاکستان میں سکیورٹی ریاست کے تصور نے جمہوریت کو پنپنے نہ دیا اور جنرل ایوب کا طویل مارشل لا پھر ضیا کا مارشل لا اور مشرف مارشل لا قوم کی جمہوری نشوونما میں رکاوٹ بن گیا۔
انسانی حقوق کمیشن کے سابق چئیرپرسن ڈاکٹر مہدی حسن کے مطابق پاکستان کی جانب سے بنگالیوں کو حقوق نہ دیے گئے جس کی وجہ سے وہ علیحدگی کی طرف چلے گئے۔

شیئر: