Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

14اگست: ڈھاکہ میں کیا ہوا؟

1975 کی 14 اور15 اگست کی درمیانی رات جب ایک پڑوسی ملک یوم آزادی منا رہا تھا، دوسرا اگلے روز منانے والا تھا اور تیسرا فقط چار سال قبل تک ان میں سے ایک کا حصہ ہونے کی وجہ سے 14 اگست کو یوم آزادی مناتا تھا لیکن آج کی رات کچھ عجیب سی تھی، فضا بوجھل اور پراسرار ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی خوفناک قسم کا پیغام بھی لانے والی تھی لیکن کسی کو معلوم نہ تھا اور پھر وہ وقت آ گیا جس کی منصوبہ بندی بڑی خاموشی سے ہوئی۔
جب فوجی اہلکار ملک کے صدر کے گھر میں داخل ہوئے تو صدر بغیر کسی پریشانی کے خود ڈرائنگ روم میں آئے کیونکہ آرمی بذات خود ان کے ماتحت تھی۔ افسران کے سپاٹ چہروں اور کچھ بدلے ہوئے انداز سے بھی وہ حالات کی نزاکت کا اندازہ نہیں کر سکے اور ہاتھ ملانے کے لیے آگے بڑھے ہی تھے لیکن اسی لمحے بندوقوں نے آگ اُگلنا شروع کر دی۔

شیخ مجیب اسلامی سربراہی کانفرنس کے موقع پر ذولفقار علی بھٹو، لیبیا کے معمر قذافی اور یاسر عرفات کے ساتھ۔۔ فوٹو اے ایف پی

پھر کیا ہوا، سے پہلے ’ایسا کیوں ہوا‘ جاننا زیادہ ضروری ہو گا اس لیے پہلے اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔

شیخ مجیب الرحمن کون تھے؟

قطع نظر نیک یا بد کے سابقے کے، پاکستان کی تاریخ میں شیخ مجیب الرحمن کا نام موجود رہے گا وہ مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے سیاست دان تھے اور اس کو ایک الگ ملک بنانے کا سب سے اہم کردار بھی، انہیں بنگلہ بندھو یعنی بابائے بنگلہ دیش بھی کہا جاتا ہے۔
وہ زمانہ طالب علمی سے سیاست سے منسلک رہے، مسلم لیگ سے وابستہ رہے اور پاکستان بننے کے بعد الگ ہو کر پاکستان سٹوڈنٹس لیگ قائم کی۔
1952 میں حسین سہروردی نے عوامی لیگ بنائی تو اس سے وابستہ ہو گئے۔ وہ 1966 میں اگرتلہ سازش کیس میں گرفتار ہوئے تاہم اگلے سال رہا کیے گئے، اسی طرح 1970 کے انتخابات میں مشرقی پاکستان سے عوامی لیگ نے اکثریت حاصل کی جس کے بعد ایک سیاسی تنازع نے جنم لیا اور انہوں نے مارچ 1971 کو عدم تعاون کی تحریک شروع کر دی جس پر ان کو گرفتار کر لیا گیا۔

شیح مجیب الرحمن کو اندازہ ہی نہیں تھا کہ فوج بغاوت پر تل گئی ہے۔ فوٹو اے ایف پی

کچھ عرصہ بعد پاک انڈیا جنگ چھڑ گئی اور 16 دسمبر 1971 کو مشرقی پاکستان الگ ہو گیا۔ 1972 میں ان کو رہا کیا گیا تو وہ براستہ لندن بنگلہ دیش پہنچے جہاں انہیں پہلا وزیر اعظم نامزد کیا گیا۔
بعدازں وہ وزیر اعظم منتخب بھی ہوئے اور صدر بھی بنے تاہم ان کے طرز سیاست سے بنگالی زیادہ خوش نہیں تھے، فوج میں بھی بے چینی پنپ رہی تھی، انہوں نے صورت حال کو دبانے کی کوشش کی اور ہنگامی حالات کا اعلان کرتے ہوئے آئینی حقوق معطل کیے۔ آئین میں کئی ترامیم کی گئیں اور صدارتی نظام نافذ کرتے ہوئے صدر بن گئے تاہم یہ صورت حال مختصر عرصے تک ہی چلی اور وہ گھڑی آ گئی جس کی منظر کشی ابتدائی سطور میں کی گئی ہے۔

غلطی کہاں ہوئی؟

اگرچہ شیخ مجیب الرحمن کو اندازہ تھا کہ عوامی حلقوں میں بے چینی پائی جاتی ہے لیکن وہ صورت حال کو اس حد تک خراب نہیں سمجھتے تھے کہ نوبت یہاں تک بھی آ سکتی ہے۔ انہیں اندازہ ہی نہیں تھا کہ فوج بغاوت پر تل گئی ہے اور یہی ان کی سب سے بڑی غلطی تھی۔
 بندوقیں اس تیزی سے تڑتڑانا شروع ہوئیں کہ ان کو کوئی بات کرنا تو کیا حیران ہونے تک کی مہلت نہ ملی۔ گولیاں چلتی گئیں اور ان کی آواز سے دوسرے کمروں میں سوئے افراد بیدار ہوتے گئے کچھ نے یہ دیکھنے کہ ہوا کیا ہے ڈرائنگ روم کا رخ کیا تو ان کا بھی حال یہی ہوا، کچھ اپنے اپنے کمروں میں دبک گئے لیکن اس رات کو موت صدارتی محل پر پر پھیلائے منڈلا رہی تھی، فوجیوں نے شیخ مجیب الرحمن ان کے بعض اہل خانہ کو ڈرائنگ روم میں موت کے گھاٹ اتارنے کے بعد دوسرے کمروں کا رخ کیا اور ایک ایک فرد کو نکال کر گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔

شیخ مجیب الرحمن کی دو بٹیاں حسینہ واجد اور شیخ ریحانہ  جرمنی میں ہونے کی وجہ سے اس حملے سے محفوظ رہیں۔ فوٹو اے ایف پی

مرنے والوں میں صدر کے علاوہ ان کی اہلیہ فضیلت النسا، ان کے تین بیٹے شیخ کمال، شیخ جمال اور دس سالہ شیخ رسل، دو بہوئیں، ان کے بھانجے شیخ فضل الحق مانی اور ان کی اہلیہ سمیت دیگر اہل خانہ شامل تھے، ان کے برادر نسبتی عبدالرب کے منٹو روڈ پر واقع گھر پر بھی حملہ کیا گیا اور وہ تیرہ دوسرے افراد کے ساتھ قتل کیے گئے۔
تقریباً پورا خاندان ہی ختم کر دیا گیا تاہم شیخ مجیب الرحمن کی دو بٹیاں حسینہ واجد اور شیخ ریحانہ جو اس وقت جرمنی میں تھیں، اس حملے سے محفوظ رہیں۔
یہ حملہ بنگلہ دیش فوج کے میجر فاروق الرحمن اور کچھ دوسرے افسروں نے مل کر کیا تھا۔ اطلاعات کے مطابق فوجی افسران اپنی کارروائی کر کے چلے گئے اور مکان میں ادھر ادھر لاشیں پڑی تھیں لیکن کسی کی ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ اندر جا کر ان کو اٹھائے یا کفن دفن کا انتظام کرے۔ کہا جاتا ہے یہ سلسلہ تین روز تک چلا۔ اسی روز ہی فوج نے اقتدار اپنے ہاتھ  میں لے لیا تھا فوجی افسران کی اجازت کے بعد ہی کچھ لوگوں نے لاشیں اٹھائیں اور ان کو آبائی علاقے میں پہنچایا گیا، شیخ مجیب الرحمن کی تدفین بڑی کسمپرسی کی حالت میں ہوئی۔

حسینہ واجد کی واپسی

شیخ مجیب الرحمن اور خاندان والوں کے قتل کے بعد بنگلہ دیش میں فوجی حکومت آ گئی اس لیے حسینہ واجد نہ لوٹیں بلکہ 1975 میں انہوں نے انڈیا میں سیاسی پناہ کے لیے درخواست دی جو منظور ہوئی اور وہ انڈیا منتقل ہوئیں وہاں وہ 1981 تک رہیں۔ عوامی لیگ کی سربراہی ملنے کے بعد وہ مئی 1981 کو بنگلہ دیش لوٹیں، اس وقت حالات کچھ بدل چکے تھے، سیاست میں حصہ لینا شروع کیا، وہ تین بار اپوزیشن لیڈر اور تین ہی مرتبہ وزیر اعظم بھی منتخب ہوئیں اور آج کل بھی بنگلہ دیش کی وزیر اعظم ہیں۔

شیئر: