Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عربی زبان: زبانوں کی سرتاج

عربی زبان کا ذخیرہ الفاظ دنیا کی کسی بھی زبان سے زیادہ ہے۔ (فوٹو: شٹر سٹاک)
آہ وہ مردان حق، وہ عربی شہسوار
حاملِ خُلقِ عظیم، صاحبِ صدق و یقیں
شعرعلامہ اقبال کی مشہور ترین نظم ’مسجد قرطبہ‘ کا ہے، تنقید نگاروں کے نزدیک ’مسجد قرطبہ‘ اردو تاریخ کی اب تک کی سب سے خوب صورت نظم ہے، جو شعر و شاعری کے ہر معیار پر پوری اُترتی ہے۔
اس میں شکوہ الفاظ بھی ہے اور آہنگ بھی، اس میں مقصدیت بھی ہے، اور وہ نفسیاتی فضا بھی، جو اپنے قاری کو پُرعظمت عہد ماضی میں پہنچا دیتی ہے۔
علامہ اقبال نے اس نظم میں عربی شعری روایت کی پیروی اختیار کی ہے، اس لیے اس نظم میں 'قافیہ' تو ہے، 'ردیف' نہیں ہے۔ اس نظم میں عربی الفاظ موج در موج موجود ہیں، مگر اسے پڑھتے ہوئے بوجھل پن طاری نہیں ہوتا، بلکہ نظم کے ساتھ مزاج میں بھی روانی آ جاتی ہے۔
اس بات کے ثبوت میں شعر بالا کو دیکھا جا سکتا ہے، جس کا مصرع ثانی از اول تا آخر عربی الفاظ سے مزّین ہے، مگر یہ الفاظ اردو میں ایسے رَچ بس گئے ہیں کہ ان کے عربی الاصل ہونے کا گمان بھی نہیں ہوتا۔
اردو میں عربی الفاظ کی تعداد کتنی ہے، اور کون سے الفاظ اپنے اصل معنی اور تلفظ کے ساتھ برتے جاتے ہیں، اور کون سے الفاظ ہیں جو اپنے معنی کے برخلاف رائج ہیں، یہ وسیع موضوع ہے، اس لیے ایک مختصر نشست میں اس کا احاطہ ممکن نہیں، تاہم عربی زبان کے عالمی دن کی مناسبت سے عربی زبان کی وسعت، ندرت، الفاظ کے حیرت انگیز نظام اور اردو سمیت دنیا کی مختلف زبانوں پر اس کے اثرات کا اجمالی جائزہ پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔
ماہرین لسانیات نے زبانوں کی جو گروہ بندی کی ہے، اس کے مطابق عربی کا شمار 'سامی' زبانوں کے گروہ میں ہوتا ہے۔ اس گروہ میں عربی کے علاوہ عبرانی، آرامی، سریانی، حبشی اور قبطی زبانیں شامل ہیں۔
یہ زبانوں کا سب سے مختصر گروہ ہے۔ زبانوں کے اس گروہ میں ایک بات عجیب تر اور دوسری دلچسپ ترین ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ اس گروہ کو 'سامی' نام تو دیا گیا ہے، مگر سامی زبانیں بولنے والے سارے لوگ 'سامی النسل' نہیں ہیں، یعنی حبشی اور قبطی غیر سامی ہیں، مگر عربی، عبرانی اور آرامی زبانوں کے غیر معمولی اثرات اور اختلاط کے باعث ان زبانوں کا رنگ ڈھنگ بھی سامی النسل لوگوں کی زبانوں کا سا ہو گیا ہے، اس لیے انہیں بھی زبانوں کے 'سامی' گروہ میں شمار کیا جاتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ زبانوں کے سب سے مختصر گروہ میں شامل عربی زبان کا ذخیرہ الفاظ دنیا کی کسی بھی زبان سے زیادہ ہے۔

'مسجد قرطبہ' اردو تاریخ کی اب تک کی سب سے خوب صورت نظم ہے۔ (فوٹو: یونیسکو)

ایک اندازے کے مطابق ان الفاظ کی تعداد ایک کروڑ 20 لاکھ الفاظ سے متجاوز ہے۔ یعنی عربی زبان الفاظ کا حیرت کدہ ہے، جس کی جانب اٹھنے والا ہر قدم ذوق طلب کو دوبالا کرتا ہے، اور انسان 'ھل من مزید' کی تصویر بن جاتا ہے۔ چوں کہ دعویٰ محتاج ثبوت ہوتا ہے، اس لیے اپنی بات کے اثبات میں چند مثالیں پیش کریں گے۔

ایک چیز کے لیے کئی الفاظ

عرب جب اپنے مقابل غیر عرب کو 'اعجمی' یعنی گونگا کہتے ہیں، تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ بول نہیں سکتا یا یہ کہ غیرعرب لکھنا پڑھنا نہیں جانتے، بلکہ یہ 'گونگا' کہنا غیر عربی زبانوں کی تنگ دامنی کی طرف اشارہ ہے۔
مثلاً حالت خوف کے اظہار کے لیے غیر عربی زبانوں میں مترادفات کی تعداد دو چار الفاظ سے زیادہ نہیں ہے، جب کہ عربی میں 'ڈر' کے لیے چار ہزار الفاظ موجود ہیں۔ یعنی لفظ کا استعمال بتا دیتا ہے کہ بولنے والے کو کس بات کا دھڑکا ہے، یا اُسے کس چیز کا خوف لاحق ہے۔
اسی طرح عربی زبان میں شیر کے لیے پانچ سو الفاظ آئے ہیں۔ اسم ذات کے علاوہ یہ نام شیروں کی صفات، کنیّات اور القابات پر مشتمل ہیں۔ شیروں کے ان ناموں میں اسد، اُسید، حیدر، عباس، ضیغم و ضرغام تو وہ نام ہیں جو اردو میں راہ پا گئے ہیں، ذیل میں ہم شیر کے سینکڑوں ناموں میں سے فقط چند نام بطور نمونہ پیش کرتے ہیں:
مُسْتَلْحِم، مُصْطَاد، مِنْهَس ،مُهْرِع، هَرْثَمَة، هِنْدِس، هَيْصَار، أَبُو فِرَاس، أَبْغَث، أَسْحَر، سَبُع، سَنْدَرِيّ، شُجَاع، عَتَرَّس، عُرْوَة، عُفْرُوس، حُلابِس، خَابِس، خَزْرَج، سِرْحَان، شَتَّامَة، شَرِيْس، خَثْعَم، خَوَّان، دَلَهْمَس، رِئْبَال، رزَّام۔
برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ شیر کے ناموں کی بہار یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ کبھی جزیرۃ العرب میں شیر و شکار کی کثرت تھی، جنہیں بندوق کی ایجاد نے معدومی سے دوچار کر دیا۔

ایک لفظ اور کئی معنی

عربی کا ایک اعجاز یہ بھی ہے کہ اس میں ایک لفظ کئی معنی میں استعمال ہوتا ہے اور معنی کی یہ وسعت دسیوں مفاہیم کا احاطہ کرتی ہے، جو عربی کا ذوق رکھتے ہیں وہ سیاق سباق کو دیکھتے ہی لفظ میں پوشیدہ معنی کو پالتے ہیں۔ مثلاً لفظ 'عین' کو دیکھیں، یہ دو درجن سے زیادہ معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ یہ معنی درج ذیل ہیں:
سونا، نقد، بارش، آنکھ ، کنویں کا دہانہ، نیزہ، فوارہ، قبلہ کا داہنا پہلو، ترازوکے پلوں کا برابر نہ ہونا، نفس شے، گُھٹنا، جاسوس، ابر، نظرلگنا، چشم آب، مشکیزہ کا دہانہ، داد (جلدی بیماری)، منتخب چیز، صاحب خانہ، پیش نظر مال، ایک پرندہ کا نام، کوہان، ماموں، ویرانہ، تل، غرور، ایک قسم کی لمبی چادر، مینڈک ، سخی، پہاڑی، تنہا، زانو کا ایک حصہ، شخص اور کوڑے کی شکن۔

عربی زبان میں شیر کے لیے پانچ سو الفاظ آئے ہیں۔ (فوٹو: نیشنل زو)

ایک لفظ اور دو متضاد معنی

عربی زبان کے حسن میں 'اضداد' یعنی ایک لفظ کے دو متضاد معنی بھی شامل ہیں۔ اور معنی کا یہ اختلاف محض واجبی سا نہیں بلکہ سرد و گرم کی طرح بھرپور ہے۔ ان متضاد معنی کے حامل الفاظ میں سے چند یہ ہیں:
جلل: چھوٹا اور بڑا۔
صارخ: فریاد سننے والا اور فریاد کرنے والا۔
رہوۃ: بلندی اور پستی۔
اہماد: چلنا اور ٹھہرنا۔
مولیٰ: آقا اورغلام۔
حرام: محترم/مقدس اور ممنوع / ناجائز۔
یہ بات عام آدمی کے لیے چونکا دینے والی ہو سکتی ہے مگر جو اہل زبان ہیں وہ موقع کی مناسب سے جان جاتے ہیں کہ اس وقت اس لفظ کو کن معنی میں برتا گیا ہے۔ میرے خیال میں 'اضداد' کے باب میں عربی بالکل ہی منفرد ہے، تاہم ڈاکٹر ظفر اقبال نے پنجابی زبان میں اس کی ایک مثال 'لادیو' پیش کی ہے۔ اگر کہنا ہو کہ جھنڈا لگا دو تو کہیں گے 'جھنڈا لادیو' اور اگر اس کے برخلاف کہنا ہو کہ جھنڈا اتار دو، تو تب بھی یہی کہیں گے کہ 'جھنڈا لادیو'۔ 

اسم آلہ

عربی کی طرح اور زبانوں میں اسم فاعل اور اسم مفعول تو ہوتا ہے، مگر 'اسم آلہ' خاص عربی زبان سے متعلق ہے۔ اس کی خاص بات یہ ہے کہ 'اسم آلہ' کو سنتے ہی مخاطب کسی الجھن میں نہیں پڑتا کہ یہ کس بلا کا نام ہے، وہ مخصوص اوزان میں ڈھلے لفظ کی بنیاد پر فوراً سمجھ جاتا ہے کہ بات 'آلہ' سے متعلق ہے۔
یہ اوزان 'مِفْعَلْ ، مِفْعَالْ اور مِفْعَلۃ' ہیں۔ جو اسم آلہ ہوگا وہ ان تین میں سے کسی ایک کے وزن پر ہوگا۔ اب اس بات کو مثال سے سمجھیں:
عربی مصدر 'فَتْحُ' کے معنی 'کھولنا' کے ہیں، اس فتح سے لفظ 'مِفْتَاحُ' ہے، جس کے لفظی معنی کھولنے والا اور اصطلاحی معنی 'چابی' ہیں۔
ایسے ہی 'صبح' سے 'مِصباح' یعنی 'چراغ' ہے، اس مصباح کے لفظی معنی صبح بنانے والا کے ہیں، چوں کہ چراغ بھی ایک درجے میں اندھیرا دور کرتا ہے، سو اس رعایت سے 'مصباح' کہلاتا ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ عربی زبان میں الفاظ کا بننا اور ڈھلنا بند ہوگیا ہے، اس لیے کہ جو بھی نو بنو چیزیں ایجاد ہوتی ہیں، ان کے نام یا ان آلات کے استعمال سے مشابہت کا کوئی بھی پہلو عربی میں 'اسم آلہ' کے اصول پر ایک نیا نام تشکیل دینے کا سبب بنتا ہے۔
مثلاً پریس عربی میں 'مَطْبَعَةُ'، تھرمامیٹر 'مقیاس' ہے، اور توپ 'مِدفَع' کہلاتی ہے۔ یہ 'مَدفَع' لفظ 'دفع' سے ہے، جس کے معنی دور کرنے کے ہیں، کیوں کہ توپ بھی گولا دور پھینکتی اور اس رعایت سے 'مِدفَع' کہلاتی ہے۔

'اسم آلہ' خاص عربی زبان سے متعلق ہے۔ (فوٹو: وام)

اسم ظرف

عربی کی ایک اور امتیازی شان 'اسم ظرف' ہے۔ عربی کے چند مخصوص اوزان میں ڈھلنے والے الفاظ اس کے اسم ظرف یا اسم مکان ہونے کا پتا دیتے ہیں۔
مخاطب لفظ کی بنیاد پر شے کا اسم ظرف ہونا جان لیتا ہے۔ دوسری زبانیں اس طرح کی حیرت انگیز خصوصیات سے یکسر خالی ہیں۔ مثلاً اگر فارسی میں اسم ظرف بنانا ہو تو لفظ کے ساتھ 'گاہ یا خانہ' کا لاحقہ لگاتے ہیں، جیسے کتب خانہ کارخانہ یا عبادت گاہ اور درس گاہ وغیرہ۔ جبکہ عربی صرف حرکات (زیر، زبر، پیش) ہی سے اسم ظرف پیدا کر لیتی ہے۔
مثلاً عربی مصدر 'مرور' کے معنی 'گذرنا' کے ہیں، عربی نے اس مرور سے 'ممر' یعنی گزرگاہ بنالیا، ایسے ہی 'کحل' یعنی سرمہ سے 'مکحل' یعنی سرمہ دانی اور 'ملح' یعنی نمک سے 'مملح' یعنی نمک دانی ہے۔
پھر جس طرح نئی نئی ایجادات کے نام مخصوص اوزان کے مطابق 'اسم آلہ' میں ڈھالے جاتے ہیں ایسے ہی تمدنی ترقی کے نتیجے میں تعمیر پانے والے نئے نئے مقامات مثلاً تھیٹر اور سٹیشن وغیرہ کو 'اسم ظرف' کے مطابق خوبصورت ناموں میں ڈھال لیتے ہیں۔
جیسا کہ انگریزی تھیٹر عربی میں ' مَسْرَح اور مَلْهٰي' ہے، پھر سٹیشن 'محطۃ'، ایئرپورٹ 'مَطَارُ'، ہیڈکوارٹر 'مَقَرُّ اور مرکز' اور بینک کو 'مَصْرِف' کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ 
دوسرے لفظوں میں کہیں تو ہر نئی ایجاد اور مخصوص ادارے عربی میں اسم آلہ اور اسم ظرف کے تحت نئے نئے الفاظ کی آمد کا سبب بنتے ہیں۔ 

اظہارِ جزیات

عربی کی ایک خوبی جزیات نگاری ہے۔ اس حوالے سے بھی عربی کا قدم دوسری زبانوں سے بہت آگے ہے۔
عربی میں شب و روز کے ہر پہر کے لیے ایک الگ لفظ ہے، چاندنی راتوں میں ہر رات کو ایک الگ نام سے پکارا جاتا ہے۔
ایسے ہی سر کے مختلف حصوں کے بالوں کے لیے جداگانہ الفاظ ہیں۔ مثلاً سر کے بالوں کو 'شعر' کہتے ہیں، بالوں کے بڑے حصے کو 'فروۃ' کہتے ہیں، سر کے اگلے حصے کے بالوں کو 'ناصیہ' کہتے ہیں، جب کہ سر کے پچھلے حصے کے بال 'دَؤابۃ' کہا جاتا ہے۔ 

ملتی جلتی مختلف صورتوں کے لیے مختلف الفاظ

عربی زبان میں مختلف اشیا کی کثرت کے لیے مختلف الفاظ آئے ہیں۔ مثلاً کثرت مال کی ہو تو 'الدثر'، چیونٹی کی ہو تو 'ویلم'، پانی کی ہو تو 'الغمر'، بارش کی ہو تو 'جفال'، فوج کی ہو تو 'مجر'، درختوں کی ہو تو 'غیظل'، اونٹوں کی ہو تو 'عرج'، گھاس کی ہو تو 'کیسوم'، اولاد کی ہو تو 'خشیلۃ' اور اگر کثرت جماعت کی ہو تو 'قبصٌ' کہلاتی ہے۔

عربی میں 'ڈر' کے لیے چار ہزار الفاظ موجود ہیں۔ (فوٹو: انسپلیش)

حیرت انگیز انفرادیت

عربی زبان کی ایک حیرت انگیز خصوصیت محض دو حروف کی بنیاد پر لفظ کے معنی کو پالینے میں ہے۔ مثلاً اگر کسی لفظ میں 'ج' اور’ن‘ جمع ہوں تو اس لفظ میں اخفا کا مفہوم پوشیدہ ہوگا۔
اگر لفظ میں ’الف‘ اور’ر‘ ہوں گے تو اس کے معنی میں تنگی کا اثر شامل ہوگا اورجو لفظ 'الف' اور’س‘ کا جامع ہوگا وہ ثبوت کے معنی ظاہر کرے گا۔ گو کہ یہ قوانین معنی حتمی نہیں مگر بیشتر صورتوں میں ایسا ہی ہوتا ہے۔

’حرف‘ معنی کا ترجمان

ابھی اب آپ نے محض دو حروف کی مدد سے مقصود پا لینے کا مشاہدہ کیا، اب یہی کمال محض ایک حروف میں ملاحظہ کریں۔
واقعہ یہ ہے کہ عربی زبان کے بعض الفاظ کا یہ اعجاز ہے کہ ان کے پہلے حرف کی صفت اس مکمل لفظ میں بھی پائی جاتی ہے۔ آپ ذرا حرف 'شین' پر غور کریں۔ اس حرف کی آواز میں کھینچاؤ اور پھیلاؤ پایا جاتا ہے۔
اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے شباب، شہاب، شارع اور شعور وغیرہ کے سے الفاظ پر غور کریں، ان میں بالترتیب جذبات کے بڑھنے، شعلے کے بلند ہونے، راستے کی طوالت اور نسبتاً ارفع فراست کا مفہوم پوشیدہ ہے۔ 

اختصار و ایجاز

عربی کی انفرادیت میں اس کے لفظوں، فقروں اور جملوں کا دنیا کی کسی بھی دوسری زبان کے مقابلے میں مختصر ہونا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ بعض زبانوں میں جو بات ایک مکمل فقرے یا جملے ادا ہوتی ہے، عربی زبان فقط ایک لفظ کی ادائیگی سے وہ مدعا پا لیتی ہے۔ مثلاً 'استرجع' کے معنی ہیں’اس نے انا للّٰہ وانا الیہ راجعون کہا'۔
ایسے ہی 'تھلل' کہیں تو اس کے معنی 'اس نے لا الہ الا اللّٰہ کہا' اور 'حیعل' کا مطلب 'اس نے لا حول ولا قوۃ الا باللّٰہ پڑھا' ہوں گے۔
اس سلسلے کا ایک خوب صورت لفظ 'صفن' ہے جس کے معنی ہیں 'گھوڑا زمین پر تین پاؤں سے کھڑا ہوا اورچوتھا پاؤں آہستہ سے اس نے زمین پر رکھا'۔ مختصر یہ کہ عربی میں بعض بسا اوقات ایک لفظ ایک جملے کا قائم بن جاتا ہے۔

انگریزی زبان کا طویل ترین لفظ

عربی زبان میں 15 حروف پر مشتمل صرف ایک لفظ وارد ہوا، اس کے برخلاف انگریزی الفاظ کی عمومی طوالت پندرہ حروف تک ہوتی ہے۔
تاہم انگریزی میں زبان میں ایک لفظ ایسا بھی ہے جو 45 حروف (Letters) پر مشتمل ہے۔ یہ لفظ دراصل پھیپھڑوں کی ایک بیماری کا نام ہے، جو ’pneumonoultramicroscopicsilicovolcanconiosis ‘کہلاتی ہے۔ یہ اس قدر طویل لفظ ہے کہ اسے ادا کرتے ہوئے ایک صحت مند انسان کے پھیپھڑے بھی پھول جاتے ہیں۔  

انگریزی میں زبان میں ایک لفظ ایسا بھی ہے جو 45 حروف پر مشتمل ہے۔ (فوٹو: انسپلیش)

عربی زبان کا طویل ترین لفظ

جیسا کہ ابھی عرض کیا کہ اختصار لفظی عربی کی خوبیوں میں سے ایک خوبی ہے۔ عام طور پر عربی کے طویل الفاظ سات حروف سے زیادہ پر مشتمل نہیں ہوتے، تاہم اس کلیے کے برخلاف عربی زبان کے ایک کروڑ سے زیادہ ذخیرہ الفاظ میں فقط ایک لفظ ایسا ہے جو اپنی طوالت میں 15 حروف پر مشتمل ہے۔
اسی لیے اس کو عربی زبان کا طویل ترین لفظ کہا جاتا ہے۔ قرآن کی سورہ الحجر کی آیت 22 میں وارد ہونے والا یہ لفظ 'أفاستسقيناكموها' ہے۔ جس کا اردو ترجمہ 'اور اُس پانی سے تمہیں سیراب کرتے ہیں' کیا گیا ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ عربی زبان کے محاسن کسی طور بھی ایک مضمون میں نہیں سما سکتے، بقول غالب 'سفینہ چاہیے اس بحر بے کراں کے لیے'، اس لیے سلسلے کو بہ دلِ نخواستہ موقوف کرتے اور عربی زبان کے معاصر زبانوں پر اثرات کا ذکر کرتے ہیں۔
تاہم اس سے قبل عربی کی اس حیرت انگیز وسعت سے متعلق معروف انگریز مؤرخ اور 'تاریخ عرب' جیسی بے مثال کتاب کے مؤلف 'فلپ کے حتی' کا بیان ملاحظہ کریں جس کا کہنا ہے کہ ’قرآن پاک کی عربی اتنی ہمہ گیر اور مکمل ہے کہ مختلف عربی لب و لہجے کے باوجود عربی زبان کے ٹکڑے نہیں ہوئے، حالانکہ خود رومی زبان بھی بعد میں کئی حصوں میں تقسیم ہوگئی تھی۔‘
’بے شک ایک عراقی ایک یمنی کا عربی لہجہ سمجھنے میں مشکل محسوس کرے گا، لیکن وہ اس کی لکھی عربی کو بآسانی سمجھ لے گا۔‘

عربی کے یورپی زبانوں پر اثرات

فرانس کے روشن خیال فلسفی 'والٹیر' نے کہا تھا، ’اسلام سے پہلے ساری دنیا یونانی تھی اور اسلام کے بعد ساری دنیا عربی ہوگئی۔‘
والٹیر کا یہ بیان عربوں کی علمی برتری کا اعتراف ہے، جس نے ہر شعبہ زندگی کو متاثر کیا۔ خاص طور پر ہسپانیہ میں عربوں کے عروج نے یورپ کی بیداری میں کلیدی کردار ادا کیا۔
لاطینی زبان سے نکلنے والی ہسپانوی، اطالوی، پرتگیزی اور فرانسیسی زبانیں براہ راست عربی زبان سے متاثر ہوئیں اور ان زبانوں کی راہ سے یہ اثرات یورپ کی دوسری زبانوں تک پہنچے ہیں۔ مثلاً:
ایڈمرل: انگریزی ایڈمرل (Admiral) کی اصل عربی کا 'امرل' ہے، جب کہ خود 'امرل' درحقیقت 'امیرالرحل' یعنی سالار کارواں کا مخفف ہے۔
آرسنل: انگریزی میں بحری جہاز کے کارخانے کو آرسنل (Arsenal) کہتے ہیں، اس لفظ کی اصل عربی کا 'دارالصنعاء' ہے، جو ہسپانوی اور اطالوی زبانوں میں دارسینا (D'arsena) ہوا، اور انگریزی تک پہنچتے پہنچتے 'آرسنل' ہوگیا۔
گابل: قدیم فرانسیسی میں پہلے نمک کے محصول کو اور پھر عام طور پر محصول کو گابل (Gabelle) کہا جاتا تھا، فرانسیسی کے اس گابل کی اصل عربی کا 'القبلہ' ہے، جس کی اصل 'قبول' ہے۔ یعنی وہ چیز جو انسان قبول کرلے۔ ہسپانوی میں یہ لفظ الکبالہ (Alcabala) اور پرتگیزی میں الگبالہ (Algabala) ہے۔
ٹیرف: فہرست جس میں مختلف محصولات کی شرح درج ہوتی ہے، وہ انگریزی زبان میں ٹیرف (Tarif) کہلاتی ہے، اس ٹیرف کی اصل بھی عربی زبان کا لفظ 'تعریف' ہے، جس کے معنی کسی چیز کو معلوم کرنا اور اس کے نرخ یا قیمت بتانے کے ہیں۔

'والٹیر' نے کہا تھا، ’اسلام سے پہلے ساری دنیا یونانی تھی اور اسلام کے بعد ساری دنیا عربی ہوگئی۔‘ (فوٹو: وال سٹریٹ انٹرنیشنل میگزین)

چوں کہ یہ بھی ایک تفصیل طلب موضوع ہے، اس لیے اس کو یہیں تمام کرتے اور عربی کے اردو زبان پر اثرات کا جائزہ لیتے ہیں۔ 
معروف محقق اور مؤرخ سید سلیمان ندوی نے عربی زبان کے اثرات کے حوالے سے ایک خوب صورت بات کہی ہے، ان کا کہنا ہے کہ ’عرب جس ملک میں بھی گئے وہاں کی زبان بدل گئی۔ اور بدل نہ گئی تو اُن کی زبان کے الفاظ نے دیسی ملکوں کے الفاظ سے مل جل کر ایک نئی زبان کا ہیولیٰ تیار کر دیا، نئی فارسی، نئی ترکی، نئی ملائی، نئی بربری اور نئی ہندوستانی نے اسی طرح جنم لیا۔‘
چوں کہ عربی کا اسلام اور اسلامی تعلیمات سے گہرا تعلق ہے، سو اس نسبت سے دنیا کے کسی بھی خطے میں رہنے اور کوئی بھی زبان بولنے والا مسلمان عربی زبان کے دسیوں الفاظ اور اصطلاحات باآسانی سمجھ لیتا ہے۔ جیسا کہ اذان، سلام، وضو، سورہ، تکبیر،فرض، سنت،نفل، الحمدللہ، استغفراللہ، ماشاءاللہ، دعا، ایمان، نکاح ، طلاق،عدت، میراث وغیرہ۔
مگر اردو نے عربی زبان کا جس قدر اثر قبول کیا ہے، اس میں شاید فارسی زبان ہی اُس کے ہم پلہ ہو تو ہو، کوئی اور زبان اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ اردو کے ذخیرہ الفاظ میں 40 فیصد حصہ عربی زبان کا ہے۔ اردو روزمرہ میں بعض صورتوں میں مکمل جملہ عربی زبان کا ادا کیا جاتا ہے اور سننے والا بات کی تہہ کو پالا لیتا ہے، ایسا ہی ایک جملہ 'فی امان اللہ' ہے۔ 
اکثر سرکاری و نجی مقامات پر ایک عمومی جملہ لکھا ہوتا ہے 'بغیر اجازت داخلہ منع ہے'۔ پانچ الفاظ پر مشتمل اس جملے میں فقط 'ہے' اردو کا لفظ ہے اور باقی تمام الفاظ عربی الاصل ہیں۔ مگر ان الفاظ کے لکھنے، پڑھنے، بولنے اور سمجھنے میں کبھی الجھن نہیں ہوتی۔ 
اردو میں مروج عربی الفاظ کی نوعیت چار طرح کی ہے۔ اول یہ کہ عربی الفاظ اپنے اصل تلفظ اور معنی کے ساتھ برتے جاتے ہیں، جیسا کہ سلام ، اذان، محفل، آداب، سیارہ، کرسی اور فلک وغیرہ۔
دوسری قسم عربی کے ان الفاظ کی ہے، جو اپنے اصل تلفظ سے کچھ مختلف مگر درست معنی میں استعمال ہوتے ہیں۔ اردو میں ان الفاظ کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ ان الفاظ کا اپنے تلفظ کے مطابق ادا نہ ہوسکنا ایک فطری امر ہے۔ وہ یہ ہے کہ باشندگان پاک و ہند کے لیے خالص عربی آوازوں جیسا کہ 'ث، ح، ص، ض، ط، ظ، ع اور ق' کا ادا کرنا عام طور پر مشکل ہوتا ہے، یوں یہ آوازیں اپنے قریب المخرج آوازوں سے بدل جاتی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اردو میں 'ث اور ص' کا تلفظ 'س'، 'ح' کا تلفظ 'ہ/ھ'، 'ذ، ض اور ظ' کا تلفظ 'ز'، 'ع' کا تلفظ 'الف' اور 'ق' کا تلفظ 'ک' کیا جاتا ہے۔ یوں لکھنے والا 'اطلاق' لکھتا اور 'اتلاک' پڑھتا ہے۔ 
برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ عربی حرف 'ض' کا تلفظ عربی زبان کا مشکل ترین تلفظ ہے۔ غیر عرب اس کا تلفظ مشکل ہی سے ادا کرتے ہیں، اور اس ایک حرف 'ض' کی بنیاد پر عربی زبان کو ’لغۃ اھل الضاد' یعنی ضاد والوں کی زبان کہا جاتا ہے۔

'فلپ کے حتی' کے مطابق ’قرآن پاک کی عربی اتنی ہمہ گیر اور مکمل ہے کہ مختلف عربی لب و لہجے کے باوجود عربی زبان کے ٹکڑے نہیں ہوئے۔ (فوٹو: گوگل آرٹ اینڈ کلچر)

تیسری قسم ان الفاظ کی ہے جو اردو میں اپنے اصل معنی سے یکسر متضاد معنی میں رائج ہیں، مثلاً عربی میں 'راشی' رشوت دینے والے کو کہتے ہیں اور اردو میں 'راشی' رشوت خور کو کہا جاتا ہے۔ ایسے ہی لفظ 'مُغوی' ہے جو اردو میں اغوا ہونے والے کے لیے استعمال ہوتا ہے، جب کہ عربی میں 'مُغوی' راستے سے بہکانے اور بھٹکانے والے کو کہتے ہیں، جب کہ اغوا ہونے والے کو میم کے زبر کے ساتھ 'مَغوی' کہا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ اردو میں اپنے متضاد معنی کے ساتھ برتے جانے والے عربی الفاظ کی تعداد بہت مختصر ہے۔
اردو میں رائج عربی الفاظ کی چوتھی قسم ان الفاظ پر مشتمل ہے، جو صورتاً عربی ہیں مگر ان کے معنی اپنی اصل سے مختلف ہیں، یا عربی معنی سے ان کی ہم آہنگی واجبی سی ہے۔ ذیل میں ایسے چند الفاظ بطور نمونہ درج ہیں:
لفظ         عربی معنی              اردو معنی
اتفاقیہ             معاہدہ                          اچانک/غیرارادی طور پر
اجازت            چھٹی/تعطیل                  اذن/ رضا
اجلاس             بٹھانا                     اجتماع/ میٹنگ
اداریہ              انتظامی                         مدیرکا خاص مضمون
اخراجات  زمین کی پیداوار/غلہ         مصارف/لاگت
استصواب کسی بات کودرست سمجھنا       ریفرنڈم/مشورہ لینا
التجا        سہارالینا/پناہ لینا             عرض/گزارش
تردید              لوٹانا                     رد کرنا/بطلان
تقریب            نزدیک کرنا                    اجتماع
تناول        کسی چیز کا لینا       کھانا کھانا
تشریح            چیر پھاڑ                 تفصیل وتفسیر
جائزہ              انعام                      پرکھ/امتحان
جہاز        مشین/آلہ                بڑی کشتی/ہوائی جہاز
رسم        نشان/نقش               رواج/طور طریقہ
سانحہ             موقع                     المیہ/حادثہ
شائع        عام ہونے والا/پھیلنے والا     چھاپنا/اشتہاردینا
شربت            پینا/ایک مرتبہ پی لینا       مشروب
عیاش       روٹی فروخت کرنے والا      عیش پسند/بدچلن
غریب            انوکھا/اجنبی                   مفلس/نادار
ان مثالوں سے واضح ہوجاتا ہے کہ سنسکرت کے سانچے میں ڈھلی اردو زبان کے خمیر میں عربی زبان موجود ہے، زبان و بیان پر عربی کے اثر نے بعض لوگوں کو اس مغالطے میں ڈال دیا کہ اردو اسلام اور مسلمانوں کی زبان ہے، مگر جو حقیقت ہے اسے ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے ان الفاظ میں بیان کردیا ہے: ’زبان کا مذہب نہیں ہوتا ،البتہ زبان کا سماج ہوتا ہے،اور ہندوستانی سماج اردو کا سماج ہے۔‘

شیئر: