Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ماریہ میمن کا کالم: کیا اپ سیٹ ہونے والا ہے؟

حکومت کی مضبوطی اور کمزوری ان کے اپنے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ (فوٹو: ریڈیو پاکستان)
وزیراعظم عمران خان نے کھیل خصوصا کرکٹ کی اصطلاحات کو سیاست میں متعارف کرایا ہے۔ انہوں نے اپنی کرکٹ کی کپتانی کو سیاست کی کپتانی کے طور پر پیش کیا، اپنے ساتھیوں کو کھلاڑی اور ٹیم کے طور پر میدان میں اتارا اور مخالفوں پر باؤنسرز اور یارکرز کے روپ میں وار شروع کر دیے۔
اپنی سیاسی جدوجہد کو کرکٹ کے سفر سے تشبیہ دی اور اپنے الیکشن کی جیت کو ورلڈ کپ کے طور پر پیش کیا۔
یہاں تک تو سب اچھا ہی چل رہا تھا مگر ورلڈ کپ کے بھی بعد ایک کے بعد ایک سخت میچ سامنے آتے گئے اور اب حالت یہ ہے کہ ایسی خبریں اور افواہیں عام ہیں کہ کوئی اپ سیٹ ہونے والا ہے۔
کرکٹ ہی کی مثال لیں تو یہ اپ سیٹ ایک فیورٹ ٹیم کے گیم سے آؤٹ ہونے اور ٹورنامنٹ سے باہر ہوئے پلیئر اور ٹیم کی واپس انٹری کی صورت میں ہو سکتا ہے۔ کیا واقعی یہ اپ سیٹ اب قریب ہے اور کیا واقعی نواز شریف کی واپسی کے ساتھ کھیل کا نقشہ بدلنے والا ہے؟
حکومت میں عدم تحفظ اور غیر مستقل مزاجی شروع سے ایک بڑا مسئلہ رہا ہے۔ پی ٹی آئی میں اندرونی اختلافات اور تبدیلیاں تو الیکشن جیتنے کے ساتھ ہی شروع ہو گئے تھے مگر اس کو ایک سٹریٹیجی کے طور پر پیش کیا گیا جس کے مطابق کپتان سارے کھلاڑیوں کو الرٹ رکھتا ہے۔
پچھلے کچھ سالوں میں سوائے وزرا اعلی عثمان بزدار اور محمود خان کے کسی کی بھی پوزیشن مستقل نہیں رہی۔
جہانگیر ترین اور علیم خان تو ساتھ ہی چھوڑ گئے، پرویز خٹک اور عاطف خان کبھی قریب اور کبھی دور ہوتے ہیں، وفاق میں اسد عمر، حماد اظہر، شہریار آفریدی اور دیگر کی وزارتیں کئی دفعہ تبدیل ہو چکی ہیں۔ کیا اب یہ عدم تحفظ اب اپنی حد تک پہنچ گیا ہے اور اسے سے آگے سنبھلنے کے امکانات نہیں اس کا اندازہ حالیہ خیبر پختونخواہ انتخابات میں ہوا۔

مقامی حکومتوں کے اختیارات سے قطع نظر حالیہ لوکل گورنمنٹ انتخابات میں اپوزیشن جماعتوں نے جم کر مقابلہ کیا۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

وہ پارٹی جس کی صوبے اور وفاق دونوں جگہ حکومت ہو اس کے لیے مقامی حکومت کا انتخاب ایک رسمی کاروائی ہوتا ہے۔ 2015 میں پنجاب میں مقامی حکومت کے انتخابات کروائے گئے۔ کسی کو یاد بھی نہیں کہ لاہور میں ن لیگ کے علاوہ دوسری پارٹی نے کتنی نشستیں جیتیں؟
مقامی حکومتوں کے اختیارات سے قطع نظر حالیہ لوکل گورنمنٹ انتخابات میں اپوزیشن جماعتوں نے جم کر مقابلہ کیا تو ایک طرف پی ٹی آئی کے اندرونی اختلافات کھل کر سامنے آئے اور دوسری طرف مہنگائی اور گورننس کا نتیجہ بھی سامنے آیا۔ کیا اگلے انتخابات میں صورتحال مختلف ہو گی؟ سوال یہ بھی ہے اگر معاشی صورتحال بہتر نہ ہوئی اور وزرا اعلی کا گورننس اسٹائل یہی رہا تو پی ٹی آئی انتخابات میں کس بیانیے کے ساتھ جائے گی؟
پی ٹی آئی کے پاس اس صورتحال کا ایک ہی جواب ہے اور وہ ہے عمران خان کی ذات۔ خیبر پختون خواہ میں انتخابات کے بعد اور پنجاب و سندھ میں آنے والے انتخابات کے لیے تمام پارٹی تنظیمیں بھی توڑ دی گئیں اور وزیراعظم عمران خان نے مختلف وزرا کو پارٹی قلمدان سونپ دیے ہیں۔
ایک وقت تھا کہ پی ٹی آئی اپنے اندر جمہوریت پر فخر کرتی تھی۔ کچھ حد تک ہی سہی پارٹی کے اندر بھی الیکشن ہوئے۔ اب صرف اوپر سے نامزدگیاں اور برخاستگیاں ہوتی ہیں۔
اگر لگے ہاتھوں پارٹی کے اندر بھی الیکشن کرائے جاتے تو شاید رہی سہی کسر بھی نکل جاتی۔ سوال یہ ہے کہ کیا اسد عمر، پریز خٹک، شفقت محمود، خسرو بختیار اور علی زیدی پی ٹی آئی میں نئی روح پھونک سکیں گے۔ آپس میں اختلافات ختم کرا سکیں گے اور اس کے بعد بڑھتی ہوئی مہنگائی کا حل بتائیں گے اور لگے اپنی حکومت کی گورننس کی خوبیاں عوام پر آشکار کر سکیں گے؟

ن لیگ کے دعوے کچھ بھی ہوں حکومت کی مضبوطی اور کمزوری ان کے اپنے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

پی ٹی آئی کی الیکشن میں کارکردگی نے ان خبروں کو نئی زندگی ضرور دی ہے جن کے مطابق مارچ کے آس پاس اپ سیٹ بھی ہونے والا ہے۔
اسی لیے دوسری طرف ن لیگ کی صفوں میں ایک نئی زندگی دوڑتی نظر آ رہی ہے۔ نواز شریف کی واپسی کی خبریں عام ہیں۔ ن لیگ کے رہنماؤں کے لہجے میں نیا اعتماد بھی ہے اور امید بھی۔ وزیراعظم بھی اپنے ترجمانوں کی بیٹھک میں یہ سوال کرتے پائے گئے کہ سزا یافتہ شخص دوبارہ وزیراعظم کیسے بن سکتا ہے۔ یہ واضح نہیں ہوا کہ یہ سوال وہ کس سے کر رہے تھے؟ سوال یہ بھی ہے کہ کیا نواز شریف کی واپسی کی خبریں ان کے ورکرز کے لیے محض لہو گرم رکھنے کا بہانہ ہیں؟
ن لیگ کے دعوے کچھ بھی ہوں حکومت کی مضبوطی اور کمزوری ان کے اپنے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ حکومت یا تو سیاست سے مضبوط ہوتی ہے یا گورننس سے۔ یہ حکومت دونوں طرف ہی مشکل میں نظر آتی ہے۔
انہی مشکلات کی وجہ سے اپ سیٹ کی خبروں کو بھی سہارا ملتا ہے باوجود اس کے کہ پچھلی دو حکومتوں میں وزرا اعظم عدالت کی طرف سے ہی فارغ ہوئے اور آخری اسمبلی جو اپنی مدت پورا کیے بغیر ختم ہوئی وہ دو دہایئاں قبل تھی۔ اس لیے کسی بھی قسم کی تبدیلی واقعی ایک اپ سیٹ ہی ہوگی اور یہ اپ سیٹ عارضی نہیں مستقل تبدیلی لائے گی۔

شیئر: