Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اپوزیشن کی سیاست: ماریہ میمن کا کالم

اپوزیشن کی حکمت عملی اپنے زور بازو کے بجائے حکومت کی کمزوری پر زیادہ منحصر ہے۔ (فوٹو: ن لیگ سوشل میڈیا)
حکومت کے لیے پچھلے کچھ ہفتے مشکل گزرے ہیں۔ ایک نوٹیفکیشن کے ایشو پر کافی چہ مہ گوئیاں رہیں، ٹی ایل پی پر پہلے جارحانہ اور پھر یک دم مدافعانہ طرز عمل نے حکومت کی فیصلہ سازی پر کئی سوال چھوڑے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی سے بھی حکومت عوامی سطح پر بیک فٹ پہ رہی بلکہ ابھی تک ہے۔ سیاسی ماحول میں اضطراب مشترکہ اجلاس کے ملتوی ہونے اور اتحادی جماعتوں کے اعلانیہ تحفظات سے پیدا ہوا۔ 
حکومتی مشکلات کے ساتھ ہی اپوزیشن کیمپ میں کچھ معمول کی ہلچل دیکھی گئی۔ اسی رو میں اپوزیشن نے اپنی کچھ سرگرمیاں شروع کرنے کا اعادہ کیا۔ کچھ ملاقاتیں، کچھ پریس کانفرنسیں اور کچھ روایتی سے احتجاجی پروگرام۔ فی الحال تو اپوزیشن کی طرف سے یہی رد عمل ہے۔ البتہ اپوزیشن رہنماؤں کی باڈی لینگویج  اور لہجے میں کوئی خاص بے تابی نظر نہیں آ رہی۔
ایک طرف تو وہ اس اعتماد کا اظہار کرتے ہیں کہ حکومت کے مشکل دن شروع ہو چکے مگر یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ ان کی پسند کی تبدیلی کا عمل کیسے شروع ہو گا۔
سوال یہ بھی ہے کہ حکومت کو مشکل صورتحال سے دوچار کرنے میں اپوزیشن کا کتنا حصہ ہے؟ اس کے جواب میں اپوزیشن کے پراعتماد ترین ارکان بھی زیادہ دعوٰی نہیں کر سکیں گے۔ بنیادی وجہ یہی ہے کہ اپوزیشن کی حکمت عملی اپنے زور بازو کے بجائے حکومت کی کمزوری پر منحصر ہے۔
دشمن کی توپوں میں کیڑے پڑے ٹائپ کی صورتحال ہے۔ یہ بات درست ہے کہ حکومتوں کی خراب کارکردگی ان کی مقبولیت میں کمی اور اس کے نتیجے میں اپوزیشن کی طرف عوام کے رجحان کا سبب بنتی ہے۔ یہاں البتہ معاملہ دوسرا ہے۔
اپوزیشن کا سارا انحصار کسی جادوئی ہاتھ کی طرف ہے جو کسی دن حکومت کے سر سے ہٹ کر ان کے سر پر آ ٹھہرے گا۔ حکومتی کیمپ میں کوئی ہلکی پھلکی غلط فہمی بھی ان کی امیدوں کے دیے روشن کر دیتی ہے۔ یوسف رضا گیلانی کا انتخاب ان کے لیے نوید مسرت لاتا ہے اور ساتھ ہی سینیٹ چیئرمین پر سب جوش واپس اپنی جگہ پر آ جاتا ہے۔

اپوزیشن کی سیاست ابھی تک کسی سگنل، کسی غلط فہمی اور کس اختلاف سے مشروط ہے۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

کچھ اتحادیوں کی ناراضگی کو وہ دور رس معنی پہناتے ہیں مگر ساتھ ہی اتحادی واپس حکومت کے ساتھ آ جاتے ہیں جیسے ابھی ای وی ایم میں مانتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ 
اپوزیشن کی ساری سیاست کا دارومدار ان حالات پر ہے جس کے نتیجے میں عمران خان بالکل مایوس کر دیں یا مایوس ہو جائیں۔ سوال البتہ یہ بھی ہے کہ اس کے بعد بھی اپوزیشن کی کیا حکمت عملی ہے؟ اس کی بنیادی وجہ اپوزیشن کا ان کے مستقبل کے اہداف پر عدم اتفاق ہے۔ یہ عدم اتفاق پی ڈی ایم کی سطح پر بھی ہے جہاں پی پی پی کی علیحدہ سردی گرمی چلتی رہتی ہے۔ ایک دن شو کاز نوٹس ہوتے ہیں اور دوسرے دن مصافحے اور معانقے بھی نظر آتے ہیں۔ 
پی ڈی ایم سے بھی زیادہ یہ فرق ن لیگ کے اپنے اندر بھی ہے جہاں دونوں کیمپس میں نظریاتی یا سوچ کا فرق تو ہے ہی مگر اپنی اپنی سوچ کے ساتھ مستقبل کا پلان دونوں کے پاس مفقود نظر آتا ہے۔
اس غیر یقینی صورتحال اور کنفیوژن کی وجہ لندن میں مقیم نواز شریف کی طرف سے پارٹی کو کسی واضح سمت کا اشارہ نہ ہونا ہے۔ نواز شریف ہمیشہ سے تمام پتے آخری وقت تک اپنے سینے کے ساتھ لگائے رکھنے کے لیے جانے جاتے ہیں۔ اب بھی پارٹی کی جانشینی سے لے کر تحریک چلانے تک سینیئر قیادت تک بھی کنفیوزڈ نظر آتی ہے۔
ان کے اپنے خاندان کو اگر پتہ ہے تو اور بات ہے اگرچہ اہل خاندان کی سیاسی سوچ میں اتفاق بظاہر تو نظر نہیں آتا۔ 

پی ڈی ایم سے بھی زیادہ سوچ کا فرق ن لیگ کے اپنے اندر ہے (فوٹو: ٹوئٹر)

اپوزیشن کی سیاست ابھی تک کسی سگنل، کسی غلط فہمی اور کس اختلاف سے مشروط ہے۔ اس لیے ان کی دی گئی ڈیڈ لائنز اور اعلان شدہ تحریکیں اس طرح بے اثر اور بے سمت رہیں گی۔ ممکنات میں سے یہ امر بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ وہ حکومت کے آخری سال کا انتظار کر رہے ہوں اور پھر یک دم ایک دھواں دار تحریک شروع کر دیں۔ سوال البتہ یہ ہے کہ وہ تحریک تو ویسے بھی انتخابی مہم پر منتج ہو گی۔ اصل میدان تو آئندہ کچھ ماہ ہیں۔
اور اگلے کچھ عرصے تک باہر سے حکومت کے لیے مشکل کچھ ہو تو ہو اپوزیشن کی طرف سے سرپرائز آنے کے امکان فی الحال تو نہ ہونے کے برابر ہیں۔

شیئر: