Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مہنگائی کا سونامی: ماریہ میمن کا کالم

چار نومبر کو وزیراعظم نے دو کروڑ خاندانوں کے لیے 120 ارب روپے کے پیکج کا اعلان کیا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)
عمران خان صاحب کو سونامی کا استعارہ بہت پسند ہے۔ طوفان، سیلاب اور بھونچال وغیرہ سے بور ہوئے تو عوام کو انہوں نے سونامی سے روشناس کرایا۔
پہلے وہ لوگوں کا سونامی لے کر آئے، الیکشن میں ووٹوں کے سونامی کا دعویٰ بھی نظر آیا۔ حکومت میں آنے کے بعد درخت بھی سونامی کے زیر اثر آئے اور بلین اور ٹین بلین تک بات جا پہنچی۔
ایک سونامی کے بارے میں وہ عوام کو خبر دار کرنا شاید بھول گئے یا وہ ان سے پوچھے بغیر آ گیا۔ وہ سونامی ہے مہنگائی کا سونامی، ان کی حکومت کی آمد کے ساتھ ہی بجلی، گیس اور ادویات کی قیمتوں میں غیرمعمولی اضافہ دیکھا گیا۔
اس کے بعد کورونا کی وبا کے ساتھ صورت حال بھی بدلی اور لوگوں کی توجہ بھی بٹ گئی۔ کورونا کیسز میں کچھ کمی واقع ہوئی تو اس کے ساتھ ہی تابڑ توڑ مہنگائی کا ایسا سونامی آیا کے اب عوام سیاست کو بھی بھول کر صرف قیمتوں کا ہی رونا روتے نظر آتے ہیں۔
اس سونامی کا آغاز ڈالر کی قدر میں اضافے سے ہوا۔ روپے کی قدر میں کمی باقاعدہ پالیسی کے تحت کی گئی جس کا حکومت نے دفاع بھی کیا اور اب تک کر رہی ہے۔
ڈالر مہنگا ہونے کا اثر باہر جانے والوں پر فوری پڑا۔ مارکیٹ میں درآمدی اشیا مہنگی ہوئیں مگر اس کے نقصانات پر ابھی بحث جاری تھی کہ تیل کی قیمتوں کو بھی پر لگ گئے۔ کچھ ہی ہفتوں میں تیل کی قیمتوں میں خاطر خواہ اضافہ کیا گیا۔ وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب اس سے قبل اعلان کیا گیا تھا کہ تیل مہنگا نہیں ہو گا۔ اب بھی مزید اضافے کی خبریں گرم ہیں۔
موٹر سائیکل اور پبلک ٹرانسپورٹ والوں کی فریاد ابھی چل ہی رہی تھی کہ چینی کی مٹھاس میں مہنگائی کی کڑواہٹ آ گئی۔ چینی کے ساتھ کھیلنا ویسے بھی اس حکومت کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔

کچھ ہی ہفتوں میں تیل کی قیمتوں میں خاطر خواہ اضافہ کیا گیا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

ایک زمانے میں چینی مافیا کا ذکر ہوا اور جہانگیر ترین اور ان کے صاحبزادے کے خلاف کارروائی شروع ہو گئی۔ پھر وہ کارروائی کہیں واپس داخل دفتر ہو گئی مگر نہیں واپس آئی تو چینی کی پرانی قیمت۔ آٹا، دالیں اور سبزیاں اس کے علاوہ ہے۔ آنے والے دنوں میں بجلی اور گیس کی بھی قیمت بڑھنے کی نوید ہے۔
حکومت کے پاس ظاہر ہے کہنے کے لیے کچھ نا کچھ ہوتا ہے۔ خطے میں کم قیمتیں، عالمی منڈی کا اثر، پچھلی حکومت، ذخیرہ اندوزی، کئی باتیں ہیں جو ہو سکتی ہیں اور ہو رہی ہیں۔
پی ٹی آئی کے بیرون ملک کے سادہ لوح سپورٹرز وہاں سے ویڈیوز بنا بنا کر حکومت کا دفاع کرتے ہوئے پاکستان کے غریب اور متوسط طبقے کے زخموں پر نمک چھڑک رہے ہیں۔
وزیراعظم نے بھی پیکج کا اعلان کیا ہے جو کیسے پایہ تکمیل تک پہنچے گا ابھی اندازہ نہیں۔ یہ بات البتہ واضح ہے کہ موجودہ سرکاری قیمتوں میں جو اشیا دستیاب ہیں وہ اتنی غیر معیاری ہیں کہ اکثر قابل استعمال ہی نہیں ہیں۔

حالیہ دنوں میں چینی کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

سوال یہ ہے کہ اس مہنگائی کے سونامی کے بارے میں حکومت کیا کر رہی ہے ؟ پی ٹی آئی اکثر ایسے معاملات، جو معیشت اور انتظامی نوعیت کے ہوں ان کو سیاسی معنی دینے میں کافی مہارت رکھتی ہے۔ اب یہ مہنگائی کا معاملہ سیاسی ہو گیا ہے اور اس سونامی میں ہر روز عوام کی امنگیں اور آرزوئیں بہہ رہی ہیں۔
بنیادی ضروریات کی اشیا میں 30 فیصد مہنگائی کا مطلب ہے کہ محدود آمدنی رکھنے والوں کی قوت خرید 30 فیصد کم ہو جائے۔ یہ طبقہ ملک کی اکثریت پر مشتمل ہے۔
اس میں سرکاری ملازم بھی ہیں اور فیکٹری مزدور بھی، سکول ٹیچر بھی ہیں اور طبی عملہ بھی، اپوزیشن کی تحریک میں تو بھلے دم ہو نا ہو، اس طبقے کا حکومت پر سے اعتماد اگر اٹھا نہیں ہے تو متزلزل ضرور ہو گیا ہے اور اگر مہنگائی کی صورتحال قابو میں نہ آئی اور یہ سونامی اسی طرح ٹھاٹھیں مارتا رہا تو اس کے اثرات اگلے انتخاب پر براہ راست مرتب ہوں گے۔

شیئر: