Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ماریہ میمن کا کالم: پی ٹی آئی کے تین سال، تبدیلی سے روایتی سیاست تک

2018 کے انتخابات میں کامیابی کے بعد پی ٹی آئی حکومت تشکیل دی تھی۔ (فوٹو: اے پی پی)
تحریک انصاف حکومت کے تین سال اختتام کو پہنچے۔ تین سال کا جشن اور کامیابیوں کے دعوے بھی کیے گئے۔ دوسری طرف اپوزیشن نے بھی رسمی طور پر حکومت کو معیشت کی ناکامی اور مہنگائی کا ذمہ دار قرار دیا۔
حکومت کا مستقل بیانیہ بھی پچھلی حکومتوں کو مسائل کی جڑ قرار دینے کا ہی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کے تین سالوں کا کس معیار پر تجزیہ کیا جائے؟
پی ٹی آئی کی کارکردگی اس کے دعوؤں کے بغیر ادھوری ہے۔ ایک تیسری جماعت کے طور پر اس کی سیاسی انٹری بلند و بانگ دعوؤں کے ساتھ ہوئی جن کو عمران خان نے کئی سال  تک سبق کی طرح دہرایا۔
اگر ان دعوؤں کی تفصیل میں جایا جائے تو اس میں کئی دعوے سیاسی نعروں کے طور جلسوں میں جوش پیدا کرنے کے لیے سامنے آئے مگر ان کے باوجود پی ٹی آئی کا بنیادی نعرہ اور دعویٰ ایک مختلف طرز حکومت کا تھا جس کو عمران خان نے تبدیلی کا نام دیا۔
پی ٹی آئی کی تبدیلی اعداد و شمار کے علاوہ نظام اور گورننس میں نظر آنی تھی۔ اس کا مطلب یہ بھی تھا کہ ان کا ایجنڈا اور ترجیحات دوسری دونوں جماعتوں سے مختلف ہوں گی۔
یعنی ن لیگ کے بڑے انفراسٹرکچر اور سڑکوں کے منصوبے اور پی پی پی کی نوکریاں اور براہ راست انکم سپورٹ سے ہٹ کر حکومت کا نظام چلنا تھا۔ اس میں سب زیادہ توقع اصلاحات کی تھی: پولیس، انصاف، ٹیکس، معیشت اور گورننس کی ایسی اصلاحات جن سے عوام کو براہ راست ریلیف ملتا۔ کیا تین سال میں یہ توقع پوری ہوئی؟
آج اگر پی ٹی آئی کے طرز حکومت پر غور کریں تو یہ پچھلی دونوں حکومتوں کے اقدامات اور سیاسی سوچ  کا ایک مجموعہ نظر آ تا ہے۔ اس کی وجہ شاید اسی دور کے وزرائے خزانہ اور دیگر وزرا کی موجودگی بھی ہو مگر اس سے بھی زیادہ یہ تین سال پی ٹی آئی کے روایتی سیاست اور روایتی معاشی پروگرام کو مکمل طور پر اپنانے کا اظہار ثابت ہوئے۔

اگلا الیکشن تحریک انصاف کن نعروں کے ساتھ لڑے گی یہ سوال اہم ہے۔ فوٹو: اے پی پی

ایک طرف اب ووٹ لینے کے لیے حکومت ہائی ویز اور بڑے منصوبوں پر ہی انحصار کر رہی ہے اور دوسری طرف احساس پروگرام بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا ہی تسلسل ہے ۔ ایم این ایز اور ایم پی ایز کے فنڈز پر عمران خان کا ایک مختلف نکتہ نظر رہا مگر اب پہلے کی طرح فنڈز اور سکیموں کو ہی ووٹ لینے کا طریقہ سمجھا جا رہا ہے۔
پی ٹی آئی کا سب سے منفرد اور بہت سے لوگوں کے لیے پر کشش نعرہ ادارہ جاتی اصلاحات کا تھا۔ اصلاحات کا خواب  تو کب کا ہوا ہو چکا بلکہ تجزیہ کاروں کے نظر میں پہلی سے موجود کچھ استحکام بھی ماضی کا قصہ ہوا ہے۔ وہ جماعت جو تھانہ کچہری اور پٹوار کے نظام کو روایتی سیاست سے آزاد کرنے کے نعرے کے ساتھ آئی تھی اس نے نا صرف اس نظام کو تقویت دی بلکہ دوسری طرف ان کا انتظامی کنٹرول بھی کمزور نظر آیا۔
اس کے نتیجے میں نظام تو تبدیل نہ ہوا البتہ عہدوں میں تبدیلی میں اس حکومت کا کوئی ثانی نہیں۔ پنجاب میں آئے روز تبدیل ہونے والے ترجمان اور وزرا اس کی مثال ہیں۔
دوسری طرف انتظامیہ میں ٹرانسفر پوسٹنگ کا تو لوگوں نے اب شمار کرنا بھی چھوڑ دیا۔ آئی جی اور چیف سیکریٹری سے لے کمشنرز اور ڈی سیز تک کی تبدیلیوں کو میوزیکل چیئرز ہی کہا جا سکتا ہے۔ باقی رہا تھانہ اور پٹوار، وہاں حالات جوں کے توں ہیں۔

انتخابات کے وقت پی ٹی آئی نے تبدیلی کا نعرہ لگایا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

سیاسی میدان میں بھی پی ٹی آئی اور  روایتی جماعتوں میں فرق کرنا مشکل ہے۔ اب تو الیکلٹیبلز کا منفی لفظ بھی زیر استعمال نہیں آتا۔
ہر صوبے میں پرانے چہرے سامنے والی صفوں میں ہیں۔ جہاں پی ٹی آئی کی حکومت نہیں وہاں سے خصوصی معاونین موجود ہیں۔ کابینہ کا حجم کہاں تک جا پہنچا ہے اور کتنا ہونا چاہیے، اب یہ حکومت کے لیے قابل غور فیصلہ نہیں ہے۔
وہ تمام اتحادی جن سے کبھی اصولی اختلاف تھا، وہ اپنی شرطیں منوا رہے ہیں۔ جو اتحادی نہیں ان کے خلاف لفظی گولہ باری جاری رہتی ہے مگر کل کا کچھ پتہ نہیں کہ سیاسی ترجیحات کس طرف لے جائیں۔

موجودہ حکومت کے دور میں مہنگائی میں اضافے سے عوام پریشان ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

قصہ مختصر یہ ہے کہ یہ تین سال تبدیلی سے شروع ہو کر روایتی سیاست تک پہنچنے کا سفر ہے۔
پی ٹی آئی اگلے دو سالوں کو الیکشن سال کے طور پر دیکھ رہی ہے  مگر اس کے نعروں اور دوسری جماعتوں کے نعروں میں تمیز کرنا مشکل ہے۔ یہ مشکل اس کی اور دوسروں کی کارکردگی کے فرق میں ہے البتہ مہنگائی کے اثرات واضح ہیں۔
کیا پی ٹی آئی اب روایتی حربوں کے ساتھ اگلے انتخاب میں قدم رکھے گی؟ امکان تو یہی ہیں کیونکہ پانچ سال پورے کرنے کے بعد تبدیلی کا نعرہ لگانا شاید مشکل ہو۔

شیئر: