Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ٹیبل ٹینس جسمانی ورزش کا کھیل ہے،ابرار علی

ابرار علی کا ٹینس کھیلتے ہوئے ایک انداز
بیٹا
ابرار علی اپنی اہلیہ رشدہ کیساتھ
ابرار علی
سعودی عرب میں ٹینس فیڈریشن بہت اچھا کام کررہی ہے، نوجوان سعودی کھلاڑیوں کی اچھی سرپرستی ہوتی ہے، ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ابرار کا مقابلہ ہو اور میں کسی اور جگہ مصروف ہوں، صباحت رشدہ
انٹرویو :مصطفی حبیب صدیقی
زندگی صفحہ جہاں آپ کی ملاقات پردیس میں رہنے والے پروفیشنلز سے کراتا ہے وہیں ہماری کوشش ہوتی ہے کہ دیگر میدانوں میں بھی خود کو منوانے والے پردیسیوں سے آپ کو متعارف کراتے رہیں۔اس مرتبہ ہماری ملاقات ریاض میں مقیم ہندوستانی ابرار علی اوران کی اہلیہ سے ہوئی۔ابرار علی ویسے تو ملازمت پیشہ ہیں تاہم انہوںنے خود کو’’ٹینس‘‘ کے ساتھ جڑے ہر کھیل سے بھی منوایا ہے۔ٹیبل ٹینس میں نام کمانے والے ابرار علی اور ان کی اہلیہ نے ہندوستانی اور پاکستانی والدین سے گزارش کی کہ خدارا اپنے بچوں کو کھیل کود کی طرف بھی راغب کریں۔آئیے سنتے ہیں کہ ابرار علی نے اور کیا کہ۔۔
اردونیوز:ابرار صاحب !آپ ٹینس کے بہترین کھلاڑی رہے ہیں ،کچھ ہمیں بتائیں گے اپنے اس شوق کے بارے میں کب اور کیسے ’’ٹینس ‘‘ سے پیار ہوگیا؟
ابرارعلی:(ہنستے ہوئے )کھیل کود سے پیار تو بچپن سے ہی رہا ہے ،حیدرآباددکن میں تھے تو وہ کھیل کھیلتے جو وہاں میسر تھا ۔ریاض میں جب ٹینس دیکھا تو اچھا لگا چونکہ ٹیبل ٹینس کا اچھا کھلاڑی تھا اس لئے ٹینس جلدی سیکھ گیا۔
اردونیوز:آپ کا تعلق ہند کے کون سی ریاست اور شہر سے ہے؟
ابرارعلی:میرا تعلق ہند کے شہر حیدرآباد سے ہے۔والد سید سردار علی صاحب منصف مجسٹریٹ رہ چکے ہیں ،میرے والد کو کھیل کو د سے زیادہ دلچسپی نہیں تھی مگر مجھے شروع سے کھیل سے پیار رہا۔
اردونیوز:پاکستان میں ٹینس میں ماضی کے معروف کھلاڑی جان شیر خان اور جہانگیر خان تھے جبکہ اب اعصام قریشی ہیں، ہند میں کون سے کھلاڑی معروف ہیں؟
ابرار علی: آپ کو یہ جان کر شائد خوشگوار حیرت ہو کہ مجھے پاکستان کے مشہور کھلاڑی اعصام قریشی سے ایک آدھ بار ریاض میں کھیلنے کا موقع ملا ہے ۔ہندوستان میں لینڈر پیس ،مہیش بھوپتی اور ثانیہ مرزا جیسے بین الاقوامی کھلاڑی ہیں۔ جن کے کھیل کی معترف ایک دنیا ہے۔
اردونیوز:آپ کس کھلاڑی سے متاثر ہیں؟
ابرار علی:مجھے راجر فیڈرر اور پیٹ سمپراس اچھے لگتے ہیں۔ویسے تو دیگر کھلاڑی بھی بہت اچھے ہیں اور میں دیگر کھلاڑیوں کی ٹینس بھی شوق سے دیکھتا ہوں۔
اردونیوز:ابرار صاحب مملکت میں اگر کوئی نوجوان ٹینس سے شغف رکھتا ہو اور وہ اپنے شوق کی تکمیل چاہتا ہوں تو کوئی ایسا ادارہ ہے جو مزید تربیت دے سکے؟
ابرار علی:جی بالکل ،سعودی عرب میں ٹینس فیڈریشن بہت اچھا کا م کررہا ہے۔نوجوان سعودی کھلاڑیوں کی اچھی سرپرستی ہوتی ہے اسکے علاوہ کئی پرانے کھلاڑی بھی اچھی کوچنگ دیتے ہیں۔
اردونیوز:ابرار صاحب آپ ماشاء اللہ بھرپور کھلاڑی ہیں،والی بال سے بھی انسیت رہی ،معروف مقولہ ہے’’ کھیلوگے کودوگے بنوگے نواب‘‘ تو کیا آپ واقعی کھیل کود کر نواب بن گئے ہیں؟
ابرار علی : نواب کا تو پتہ نہیں البتہ میں نے کھیل کو انجوائے کیا ہے ،ہمیشہ سے ہی کھیلوں کا شوق رہا ہے ۔والی بال ،فٹ بال،بیٹ منٹن ،ٹیبل ٹینس اس طرح کے کھیل اچھے لیول تک کھیل چکاہوں۔
اردونیوز:ٹینس اور والی بال دونوں ہی جسمانی طور پر چاق وچوبند رکھنے والے کھیل ہیں تاہم آج کل ہمارے نوجوانوں میں صحت مند کھیلوں کا رحجان کم ہوتا جارہا ہے آپ کیا کہیں گے ا س بارے میں؟
ابرار علی :ہندوستان اور پاکستان کے بچوں کے ساتھ بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں ماں باپ بچوں کو اس طرف راغب ہی نہیں کرتے ۔کھیل کے نام پر صرف کرکٹ کو ہی کھیل سمجھا جاتا ہے جبکہ ٹیبل ٹینس ،بیڈ منٹن وغیرہ جسمانی ورزش کے کھیل ہیں،بچے چاک وچوبند رہتے ہیں۔والدین کو اپنے بچوں کو ان کھیلوں کی جانب بھی راغب کرنا چاہیئے۔
اردونیوز:کھیل سے آپ کو ہی شغف رہا یا بچوں کو بھی اس جانب راغب کیا؟
ابرارعلی:جی بالکل میرے بچے بھی کھلاڑی رہے ہیں۔بڑی بیٹی رمشا اور دوسری بیٹی صائمہ بھی اپنے اسکول اور کالج میں بیڈ منٹن کیپٹن رہ چکی ہیں ۔صائمہ تو ماشاء اللہ اب ڈاکٹر بن گئی ہے تاہم وہ کالج میں بیڈ منٹن چیمپئن رہ چکی ہے۔بیٹا عمار بھی بی ڈی ایس کررہا ہے ۔وہ اپنے اسکول میں کرکٹ کا کیپٹن رہا ہے ۔اسے کرکٹ کا شوق ہے تاہم صرف کرکٹ ہی نہیں عمار نے خود کو بیڈ منٹن میں بھی منوایا ہے اور وہ بیڈ منٹن کا بھی چیمپئن رہا چکا ہے۔
اردونیوز: چلیں بہت باتیں ہوگئیں کھیل کود کی کچھ خاندان کے بارے میں بھی بات ہوجائے ماشاء اللہ آپ کے بچے اچھی پوزیشن پر پہنچ چکے ہیں،بچوں کو ہمیشہ ساتھ رکھا یا کبھی الگ بھی ہوئے؟
ابرار علی: آپ تو جانتے ہی ہونگے کہ سعودی عرب سے ہمارے بچوں کو تعلیم کیلئے اپنے ممالک جانا ہوتا ہے ایسے ہی جب تک اسکول رہا بچے ساتھ ہی رہے مگر اب ہندوستان میں اعلیٰ تعلیم حاصل کررہے ہیں اس لئے جب جب موقع ملتا ہے آتے جاتے رہتے ہیں۔
اردونیوز:مملکت کی زندگی اور ہند کی زندگی کا تقابل کرنے کا کہا جائے تو آپ کیسے کرینگے؟
ابرار علی:مملکت کی زندگی اور ہند کی زندگی کا کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے۔جس طرح سکون اور اطمینان سے یہاں زندگی گزرتی ہے اس طرح کی زندگی کا اپنے ممالک میں سوچا بھی نہیں جاسکتا۔
اردونیوز:اچھا کچھ باتیں زرا الگ اندا ز میں ہوجائیں،بھابھی کو بھی کھیل کود سے دلچسپی ہے یا پھر آپ کو ’’’کھیل کود ‘‘ کرنے پر ڈانٹ پڑتی رہتی ہے؟
ابرار علی:ہماری محترمہ کا نام ’’رشدہ صباحت‘‘ ہے اور میری کھیل کی زندگی میں ہر قدم پر مجھے انکا ساتھ رہا ۔میرے ہر مقابلے میں وہ میرے شانہ بشانہ رہیں جبکہ آپ کو انکشاف کروں کے وہ خود بھی بیڈمنٹن کی اچھی کھلاڑی رہی ہیں۔
اردونیوز:ارے ماشاء اللہ ،یعنی آپ کا تو پورا گھر ہی کھلاڑی ہے یہ تو بہت اچھی مثال ہے۔
ابرارعلی:جی الحمد اللہ
اردونیوز: اچھا ہندوستان میں مسلمانوں کے مستقبل کے بارے میں آپ کس قدر پرامید ہیں؟کیا مسلمان نوجوانوں کو کھیل اور دیگر میدانوں میں آگے بڑھنے کے مواقع دیکھتے ہیں ؟
ابرار علی:الحمد اللہ آج بھی ہندوستانی مسلمان سربلند کرکے زندگی گزار سکتے ہیں۔حکومتیں آتی ہیں جاتی ہیں ۔یہ تو چلتا رہتا ہے لیکن مسلمان پوری عزت اور احترام کے ساتھ جیتے ہیں۔خاص طور پر حیدرآبادی مسلمان تو بڑی شان سے جیتے ہیں۔
اردونیوز:کچھ باتیں بھابھی سے بھی ہوجائیں۔۔بھابھی آپ کی جب شادی ہوئی تو اس وقت تو ابرار صاحب کا کھیل عروج پر ہوگا تو کبھی کوئی ایسا واقعہ کہ ابرار صاحب نے آپ سے زیادہ اپنے کھیل کو اہمیت دی اور آپ کا ’’پارہ‘‘ ہائی ہوگیا؟
رشدہ صباحت:ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ابرار کا کوئی مقابلہ ہو اور میں کسی اور جگہ مصروف ہوں۔شادی سے پہلے ،پہلی بار میں نے ان کی تصویر حیدرآبادی اخبار ہی میں دیکھی تھی۔ان دنوں یہ ٹیبل ٹینس زوروں سے کھیلا کرتے تھے اور ایمبیسی آف انڈیا کلب کے کمیٹی ممبر تھے۔
اردونیوز:آپ کے شوہر کھلاڑی ہیں ،ایک ماں ہونے کے ناطے آپ نے بچوں پر کیا کبھی دبائو ڈالا کہ وہ کھیل کے بجائے پڑھائی کو اپنا ہدف بنائیں؟
رشدہ صباحت:بچوں نے خود ہی ہمیشہ پڑھائی کو زیادہ اہمیت دی ہے ساتھ ساتھ کھیل بھی چلتا رہا ہے۔بہر حال میری تمام ہندوستانی اور پاکستانی والدین سے گزارش ہے کہ اگر بچوں کی فطرت میں کھیل کی طرف رغبت دیکھیں تو ان کی ہمت افزائی کریں ۔روزانہ بچوں کو کچھ نہ کچھ جسمانی کھیل کی طرف راغب کریں ۔تاکہ بچوں کی صحیح سے ورزش ہوسکے۔کھیل دلچسپی کیساتھ ساتھ جسمانی ورزش کا بھی بہترین ذریعہ ہے ۔خدارا اسے ہماری سوسائٹی میں پھلنے پھولنے دیں۔
٭٭٭٭٭٭

شیئر: