Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عفرا بخاری: جن کے افسانوں میں مظلوم کی چیخ سنائی دیتی ہے

تین جنوری 2022 کو سیدہ عفرا بخاری کا لاہور میں انتقال ہو گیا ہے۔ 
کیا ایسا ممکن ہے کہ اپنے جنم کے ابتدائی برسوں میں جو کچھ آپ نے دیکھ، اسے آپ نے اپنی یاداشت کے کسی گوشے میں مقفل کردیا ہو، اور نصف صدی بیت  جانے کے بعد ایک کہانی (یا کہانیوں) کی صورت میں کینوس پر ایسا منظر کھینچیں کہ سارا منظر پڑھنے والوں کو اپنے حصار میں جکڑ لے؟ 
جذبات کی رو میں بہہ جانا ایک الگ معاملہ ہے لیکن کیاایسا ممکن ہے کہ جس جگہ آپ نے جنم لیا ہو، وہ آپ کی یاداشت سے یکسر مٹ جائے؟ ایسا شاید ممکن نہیں۔ 
عفرا بخاری نے کہانیاں لکھیں۔ افسانے لکھے۔ وہ کہتی تھیں کہ ’جو میں نے سماج میں دیکھا وہی لکھا۔‘  اپنی کہانی کے کرداروں کو لفظوں کی  چادر میں یوں باندھا کہ جیتا جاگتا انسان آپ کی آنکھوں کے سامنے آجائے۔  رنگوں کے بجائے انہوں نے بلیک اینڈ وائٹ منظر کشی کی۔ ان کی کہانیوں میں آج کے انسان کی درد بھری وہ کراہ ہے جسے ہم اپنی زندگی میں سن کر بھی ان سنا کر دیتے ہیں۔ 
تقسیم سے قبل امرتسر میں عفرا بخاری کی زندگی کے ابتدائی چند برس گزرے۔ ان سے کوئی بھی ملاقات امرتسر کے ذکر کے بغیر ادھوری رہی۔  ایک بار انہوں نے پوچھا کہ ’امرتسر اب کیسا ہے، مجھے امرتسر دکھائی دیتا ہے‘۔  عفرا بخاری امرتسر دیکھنا چاہتی تھیں لیکن ان کی یہ خواہش کبھی پوری نہ ہو سکی۔ انہیں بچپن میں دیکھا ہوا امرتسر یاد تھا، وہاں کے چلتے پھرتے کردار یاد تھے، جنہیں انہوں نے اپنے افسانوں کے کردار بنا کر امر کر دیا۔ 
تین جنوری 2022 کو سیدہ عفرا بخاری کا لاہور میں انتقال ہو گیا ہے۔ 
عفرا بخاری سے میری پہلی ملاقات ان کے صاحبزادے عامر فراز کے توسط سے 2006 میں ہوئی۔ ایسی پرکشش اور جاذب نظر شخصیت۔ روئی کی طرح سفید بال، سرخ و سپید چہرہ۔ ٹھیٹھ پنجابی بولتی تھیں۔ جتنا سخت لہجہ ان کی تحریروں میں ملتا ہے، ان کا میٹھا پنجابی لہجہ ان کے سخت مزاج پر حاوی تھا۔ لاہور میں ان سے ملاقاتیں حلقہ ارباب ذوق لاہور، انجمن ترقی پسند مصنفین سمیت دیگر ادبی حلقوں، کبھی ریڈیو سٹیشن، کبھی ان کی رہائش گاہ پر ہوئیں۔ 

عفرا بخاری اور سابق سیکریٹری حلقہ ارباب ذوق لاہور عامر فراز (تصویر بشکریہ عامر فراز)

عفرا بخاری نے 1938 میں تقسیم ہند سے قبل امرتسر میں آنکھ کھولی۔ قیام پاکستان کے بعد اپنے خاندان کے ہمراہ لاہور قیام کیا۔ لکھنے لکھانے کا شوق انہیں شاید ورثے میں ملا۔ ان کے ایک بھائی ریاض بخاری شعر و شاعری میں شغف رکھتے تھے۔ گورنمنٹ کالج کوپر روڈ لاہور میں دوران تعلیم ہی بچوں کے لیے کہانیاں لکھنے کا آغاز کیا۔ سنہ 1959 میں باقاعدہ افسانہ نگاری کی طرف آئیں۔ 
1978 میں شریک حیات کے انتقال کے بعد خاندانی ذمہ داریوں کے پیش نظر وہ ایک طویل عرصے تک ادبی منظر نامے سے اوجھل  رہیں۔ نوے کی دہائی میں انہوں نے دوبارہ افسانہ نگاری کا آغاز کیا اور جب قیام پاکستان کے پچاس سال پورے ہونے کا جشن منایا جا رہا تھا تو عفرا بخاری ایک ایسا افسانہ لکھ رہی تھیں جس کی کہانی انہوں نے پچاس سال اپنے سینے میں دبائی رکھی۔ ’میان پترو‘ تقسیم کا دکھ ہے۔ ہجرت، نقل مکانی، غرب الوطنی، بے سرو سامانی اور اجڑنے کا دکھ تقسیم کے پچاس سال کے بعد عفرا بخاری کے ایک شاہکار افسانے ’میان پترو‘ کی شکل میں ہمارے سامنے آتا ہے۔ 
ان کا پانچواں افسانوی مجموعہ ’سنگ سیاہ‘ گذشتہ سال شائع ہوا جبکہ اس  سے پیشتر اُن کے افسانوں کے مجموعے، ’فاصلے ‘ (1964)، ’نجات‘ (1998)، ’ریت میں پاؤں‘ (2003) اور ’آنکھ اور اندھیرا‘ (2009) شائع ہوئے۔  اس کے علاوہ ان کے افسانے استقلال، تعمیر نو، ادب لطییف، داستان گو، امروز، سویرا، افکار، ماہ نو، نقوش، فنون، سیپ، الشجاع، سیارہ ڈائجسٹ، زیب النسا اور چلمن سمیت دیگر موقر ادبی جریدوں میں شائع ہو تے رہے۔ 

عفرا بخاری کے افسانوں کے پانچ مجموعے شائع ہو چکے ہیں (تصویر بشکریہ عامر فراز)

عفرا بخاری  کے افسانے درد میں لپٹی وہ داستان بیان کرتے تھے جو اس سماج کی عورت نے صدیوں سے جھیلے۔ ان کی تحریر یں چھوٹے چھوٹے خاندانوں کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں اور بڑے بڑے دُکھ، معاشرے کی ناہموار بساط  پر سر اٹھائے عورت کی وہ چیخ ہے جو اس مردہ ضمیر معاشرے کا سینہ چیر سکتی ہے۔ 
عفرا بخاری کے افسانوں میں ایک دیولامائی کیفیت محسوس ہوتی ہے۔ ان کے افسانوں میں شوخ رنگ نہیں بلکہ وہ سنگ سیاہ جو اس سماج کے ہر فرد پر لاد دیا گیا۔ ریت میں پاؤں ہوں تو نجات کا راستہ بھی مشکل ہی نظر آتا ہے۔ آنکھ اور اندھیرے کا تعلق کیا ختم کیا جا سکتا ہے؟ وہ لفظوں کا ایک ایسا دائرہ تخلیق کرنے کا ہنر رکھتی تھیں کہ قاری ان کو اس معاشرے کا وہ عکس دکھائی دینے لگتا جس میں معاشرتی ناانصافی، ظلم، جبر، استحصال اور پدرشاہی نظام کی تصویر ابھر کر سامنے آتی۔ یہی وجہ تھی کہ جب انہوں نے افسانہ نگاری کا آغاز کیا تو انہیں ’باغی افسانہ نگار‘ کے نام سے یاد کیا جانے لگا۔ 
امرتسر کی گلیوں میں گھومتی پھرتی نٹھ کٹھ سی اس شرارتی لڑکی کی وقت اور حالات نے ایسی پرورش کی کہ وہ تقسیم ہند کے بعد اردو ادب میں ایک ایسا تناور درخت ثابت ہوئی جس نے اپنی ذاتی زندگی میں بھی تند و تیز طوفانوں کا سامنا کیا اور افسانہ نگاری میں بھی ایک ایسی آواز بنی جس کی گونج تادیر سنائی دیتی رہے گی۔ 

شیئر: