Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لاہور کا کرشن نگر اور میری یادیں

لاہور کا علاقہ کرشن نگر 1930 میں نیا نیا آباد ہوا۔ فوٹو: عادل لاہوری
میں کافی عرصے سے سوچ رہا تھا کہ کرشن نگر کے بارے میں لکھا جائے میرے ننھیال کا تعلق لاہور کے اندرون شہر چونا منڈی اور لوہاری سے ہے، جو قیام پاکستان سے قبل اور کچھ بعد میں کرشن نگر میں آ بسے تھے جو اب یہاں سے جا چکے ہیں۔
سو ان کی یادوں کو اکٹھا کر کے آج لکھ رہا ہوں۔
ہمیں یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ قیام پاکستان کے بعد کا کرشن نگر میرے دادا، تایا اور والد صاحب کے ہاتھوں ہی چپس اور تزئین و آرائش کا کام ہوتا رہا، اگر میں یہ کہوں تو غلط نہ ہوگا کہ لاہور میں آج بھی پرانے گھروں میں جو فرشی ٹائل لگی ہوئی ہے وہ ہمارے ہی کارخانے کی ہے، اسی لیے کرشن نگر کے کافی گھروں کو ہم بخوبی جانتے ہیں۔
لاہور کا علاقہ کرشن نگر 1930 میں جب نیا نیا آباد ہوا تو اندرون شہر سے ہندوؤں کی ایک بڑی تعداد نے، جو سرکاری ملازم تھے، یہاں آ کر اپنے مکانات بنائے اور اس علاقے کو آباد کیا۔
مسلمانوں کی صرف ایک ہی عمارت تھی، جس کا نام سراج بلڈنگ تھا جو اب بھی موجود ہے جبکہ ہندوؤں کی اولین عمارتوں میں سے سوری بلڈنگ تھی جس کو قیام پاکستان کے بعد نوری بلڈنگ کا نام دے دیا گیا اور پچھلے سال اس کو گرا دیا گیا۔ اب اس کی جگہ ایک اور پلازہ بن چکا ہے یہ بلڈنگ ایک ڈاکٹر صاحب کی تھی جو کافی عرصے تک یہاں کلینک یہاں چلاتے رہے، کیا خوبصورت دلکش مکان کرشن نگر میں موجود تھے جو اب کافی حد تک ختم ہوتے جا رہے ہیں۔
قیام پاکستان کے بعد اترپردیش، دہلی اور لکھنؤ سے مسلمانوں کی بڑی تعداد یہاں آکر آباد ہوئی۔
میرے نانا کا یہاں پر ہوزری کا کارخانہ تھا، جو قیام پاکستان کے کچھ سال بعد ختم ہوگیا۔ میرے نانا بتایا کرتے تھے کہ یوپی کے مسلمان جب یہاں آئے تو ہندوؤں کے صاف ستھرے اور عالی شان مکانات دیکھ کر کہتے تھے کہ شاید ان مکانوں کے مکین بازاروں میں سودا سلف لینے گئے ہوں، کیا سلیقے سے گھروں کو رکھا ہوتا تھا۔
ہر گھر کے اندر ایک بڑا پلنگ کرشن نگر کا لازمی جز تھا، مگر بٹوارہ ہو چکا تھا۔ اگر میں یہ کہوں کہ کرشن نگر واحد ایسی سوسائٹی تھی جس کے ہر مکان کے ساتھ نکڑ اور گلی لگتی تھی جو ابھی موجود ہیں تو غلط نہ ہوگا۔ کیا خوب یو پی اور لکھنؤ کے لوگ تھے اپنے ساتھ پاندان رکھتے تھے اور کرشن نگر سعدی روڈ پر کئی پان کے پتوں اور لوازمات کی دکانیں موجود تھیں۔

کرشن نگر اور سمن آباد واحد ایسے علاقے تھے جہاں سب سے زیادہ سکوٹر رکھنے والے لوگ رہتے تھے (فوٹو: عادل لاہوری)

لوگ شروع میں چوڑی دار پاجامہ پہنتے تھے اور آواز کے اندر اتنا دھیما پن، جو میں آج سے 25 سال قبل سن چکا ہوں۔ پی ٹی سی ایل کے ایک دیرینہ آفیسر مقبول احمد جن کا تعلق لکھنئو سے تھا، کیا زبان تھی ان کی، خوبصورت لفظوں کی ادائیگی آج بھی میرے کانوں میں گونجتی ہے، ایک چھوٹا سا بیگ بغل میں رکھا کرتے، چوڑی دار پاجامہ پہنتے تھےاور تقریباً ہر روز میرے والد صاحب سے ملنے آ جاتے تھے۔
کرشن نگر اور سمن آباد واحد ایسے علاقے تھے جہاں سب سے زیادہ سکوٹر رکھنے والے لوگ رہتے تھے۔
جو لوگ یہاں آ کر بسے، اپنی تہذیب ساتھ لے آئے اور جو لوگ یہاں سے چلے گئے، اپنی تہذیب بھی ساتھ لے گئے۔
اس کے قریب ہی نیلی بار موجود تھی جس کو لاہور کا پوش شراب خانہ کہا جاتا تھا۔ پھر آہستہ آہستہ اسی نیلی بار کے پاس شاعروں, ادیبوں اور لکھاریوں نے ڈیرے ڈال لیے۔ بار تو بند ہوگئی مگر نام پھر بھی رہ گیا۔
اشفاق احمد، منو بھائی تو اکثر اوقات کرشن نگر ہی میں پائے جاتے تھے کیونکہ ان کے ایک دوست مرزا ادیب کا گھر پانڈو سٹریٹ میں تھا جس کے کافی مکانات اب ختم ہو چکے ہیں۔

کرشن نگر میں رہنے والے  زیادہ تر لوگ سرکاری ملازم تھے (فوٹو: عادل لاہوری)

دیو سماج روڈ کے اختتام پر ایک چھوٹا سا موڑ کاٹ کر نہرو پارک ہے۔ (کافی عرصہ پہلے سنت نگر، نہرو پارک اور کرشن نگر کے نام تبدیل کر دیے گئے۔ سنت نگر میں ایک زمانے میں کرشن چندر اور صوفی غلام مصطفیٰ تبسم رہتے تھے اور کرشن نگر میں ناصر کاظمی اور کشور ناہید کے گھر تھے۔)
نہرو پارک کے دائیں جانب ایک گلی کے مکان کی دوسری منزل کے دو کمرے کے پورشن میں شاعر انقلاب حبیب جالب اپنی فیملی کے ساتھ انتہائی غربت کی حالت میں زندگی گزار رہے تھے، لیکن یہ ان کی شاعرانہ اور سیاسی کیرئر کے عروج کا زمانہ تھا۔ 
کرشن نگر کے زیادہ تر لوگ سرکاری ملازمت میں تھے جن میں ریڈیو پاکستان، پاکستان ٹیلی ویژن، پی ٹی سی ایل محکمہ ڈاک اور سول سیکرٹریٹ کے ملازم تھے۔
کرشن نگر میں ایک نتھا نائی ہوا کرتا تھا ساری زندگی پستول لگائے کرشن نگر میں اپنے سکوٹر پر پھرتا تھا اور صبح فجر کی اذان دینے کے لیے ساندہ تکیہ محمود شاہ چلا جاتا تھا۔
کیا درد تھا اس کی آواز میں، میں نے اس کو بڑھاپے میں اذان دیتے ہوئے دیکھا ہے۔

قیام پاکستان کے بعد اترپردیش، دہلی اور لکھنؤ سے مسلمانوں کی بڑی تعداد یہاں آ کر آباد ہوئی (فوٹو: عادل لاہوری)

ایک مشہور کردار بھیروی صاحب کا بھی ہوتا تھا جو اس پورے بازار کی رونق تھے کسی کو کوئی بھی مسئلہ ہوتا، ان کے پاس پہنچ جاتا تھا چھوٹا سا کاروبار تھا مگر پورے کرشن نگر کے صدر تھے۔
کرشن نگر کے گجر بہت مشہور ہیں۔ ہمارے بڑے بتاتے ہیں کہ ان کی بہت سے جائیدادیں کرشن نگر میں اس طرح بنیں کہ خالی پلاٹ دیکھ کر وہاں اپنی بھینسیں چھوڑ دیں جب یہ دیکھا کہ کوئی منع نہیں کر رہا تو آہستہ آہستہ چار دیواری کر لی اور زمین اپنی ہو گئی۔
آج کل یہ لوگ دودھ کا کاروبار چھوڑ کر پراپرٹی کے کام میں لگ گئے ہیں، پاکستان بننے کے بعد گجروں کی ایک کثیر تعداد رام گلی گوالمنڈی سے کرشن نگر منتقل ہو گئی اور بند روڈ پر اپنے جانور رکھے۔
پنجابی فلموں کے ایک انویسٹر حامی اور گامی بٹ بھی کرشن نگر میں رہتے تھے۔ کیا خوش لباس تھے۔ مجھے کئی بار ان کے گھر جانے کا اتفاق ہوا۔ ان کا گھر نوید کمال بھٹی کے گھر کے پاس تھا۔

60 نمبر خوبصورت وین بھی چلتی تھی جس پر خوبصورت ٹرک آرٹ ہوا کرتا تھا (فوٹو: ان سپلیش)

یوسف خان کے بغیر تو کرشن نگر نا مکمل ہے۔ والد صاحب کے بقول کرشن نگر میں بہت سے فلمی اداکار یوسف خاں کی کوٹھی میں آتے رہتے تھے اور لوگ ان کو دیکھنے کے لیے کئی کئی گھنٹے کوٹھی کے بارے انتظار کرتے تھے اور ہمارے پاس یوسف خان خود کئی بار آتے رہے، ان کی کوٹھی جو اب موجود نہیں ہے اس کے فرشی ٹائل ہمارے ہی کارخانے کے تھے۔
یوسف خان کی کوٹھی کے بالکل قریب ہمارے لوک فنکار شوکت علی کا بھی گھر تھا۔ مجھے ان سے ملنے کا کئی بار اتفاق ہوا۔ میرے دوست کا گھر بالکل ان کے قریب تھا۔
میری نانی بتاتی ہیں کہ 1948 میں ایک ہندو کرشن نگر کے ایک مکان میں آیا اور اپنے ساتھ پولیس کے اہلکار اور دو مزدور بھی لایا۔ مکینوں سے اجازت کے بعد اس نے ایک کمرے کا فرش کو کھودا اور اپنا سامان جس میں سونا اور قیمتی برتن موجود تھے نکالا اور چلا گیا۔ یہ اسی ہندو کا مکان تھا جس کی تعمیر 1932 میں ہوئی تھی۔
اس واقعے کے کئی سال بعد بہت سے مسلمانوں نے اپنے مکانوں کے فرش کھودنا شروع کیے کیونکہ لالچ ہر انسان کے اندر ازل سے موجود ہے مگر افسوس بہت سے لوگوں کو کچھ نہ مل سکا۔
کرشن نگر کی اگر بس کا ذکر نہ کیا جائے تو سراسر زیادتی ہوگی۔ پرانے کرشن نگری یقیناً اس بس سے تو ضرور واقف ہوں گے جو کرشن نگر سے آر اے بازار جاتی تھی۔ پھر ایک زمانے میں 60 نمبر خوبصورت وین بھی چلتی تھی۔ کیا خوبصورت ٹرک آرٹ ہوا کرتا تھا جو آخری بس سٹاپ سے ہوتی ہوئی کھوجے شاہی تک جاتی تھی۔

کرشن نگر کو چاہے اسلام پورہ کا نام دے دیں مگر کرشن نگر کی کیفیت کو دل سے نہیں نکالا جا سکتا (فوٹو: عادل لاہوری)

کرشن نگر علم و ادب کا بہت بڑا گہوارہ رہا ہے۔ 1980 کے بعد یہاں بدمعاشی کا بھی آغاز ہو گیا جن میں ’باؤ وارث‘ کا نام سر فہرست تھا۔ ایک وقت تھا جب ان کا ڈنکا بجتا تھا مگر علاقہ بہت محفوظ رہا۔
میری ملاقات محترم انیس ناگی سے 2009 میں پنجاب پبلک لائبریری میں ہوئی۔ میں ان کو نہیں جانتا تھا مگر کیا غضب کا ڈریسنگ سٹائل تھا ان کا، سفید پینٹ سفید شوز اور سفید شرٹ اور کالی عینک، مجھے کسی نے ان کے بارے بتایا کہ یہ کرشن نگر کی بہت معلومات رکھتے ہیں مگر افسوس میں استفادہ نہ کر سکا اور اگلے سال اکتوبر 2010 میں وہ رخصت ہو گئے۔ اگر دانیال ناگی اس سلسلے میں میری مدد کر سکیں تو اگلی تحریر کے لیے بہت کچھ دستیاب ہو جائے گا۔
کسی زمانے میں فردوس سینما کے باہر عاطف چوک میں مذبحہ خانہ ہوا کرتا تھا۔ اس سے آگے کھیت ہی کھیت تھے۔ وڈے ساندے کے پاس آرائیوں کی ایک بلڈنگ موجود تھی جس کی تعمیر کرنل سلیم ملک نے کروائی تھی وہ بلڈنگ قیام پاکستان سے پہلے کی ہے آج بھی اس کو آرائیوں والی بلڈنگ کہا جاتا ہے کافی آرائیں اس کے آس پاس آ کر بسے۔
ایک تار گھر ہوتا تھا جس کے باہر ’تار گھر‘ ہی لکھا ہوتا تھا مجھے بہت تجسس ہوتا تھا کہ آخر یہ کیا ہے کافی دیر بعد پتا چلا کہ لوگ یہاں سے باہر کے ممالک میں فون کیا کرتے تھے اب وہ بھی ختم ہو چکا ہے۔
کرشن نگر کو چاہے اسلام پورہ کا نام دے دیں مگر کرشن نگر کی کیفیت کو دل سے نہیں نکالا جا سکتا۔
 

شیئر: