Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’امریکہ میں جمہوریت کا مستقبل کیا ہے‘ بائیڈن سے یہ سوال بار بار کیوں ہو رہا ہے؟

ڈولڈ ٹرمپ کے حامیوں نے 6 جنوری 2021 کو کیپیٹل ہل پر دھاوا بولا تھا۔ فوٹو گیٹی امیج
امریکی صدر جو بائیڈن کو عالمی رہنماؤں کی جانب سے امریکہ کے مستقبل اور جمہوریت سے متعلق پریشان کن سوالات کا سامنا ہے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق عالمی رہنما صدر بائیڈن سے سوال کرتے ہیں کہ کیا امریکہ ٹھیک ہو جائے گا؟ اور امریکہ میں جمہوریت کا مستقبل کیا ہو گا؟
اگرچہ صدر جو بائیڈن نے اتحادی ممالک کو یقین دہانی کروانے کی کوشش کی ہے لیکن بہت ہی کم مواقع پر وہ امریکی جمہوریت کو لاحق خطرات کی سنگینی پر زور دے سکے ہیں۔
گزشتہ سال چھ جنوری کو سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں کی جانب سے کیپیٹل ہل پر ہونے والے حملوں اور  2020 کے انتخابات کی شفافیت سے متعلق ٹرمپ کے متنازع بیانات نے نئی امریکی حکومت کے لیے مشکلات کھڑی کر دی ہیں۔
کانگریس کی عمارت پر ہونے والے حملے کا ایک سال مکمل ہونے پر صدر جو بائیڈن کو دباؤ کا سامنا ہے کہ وہ اپنی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے حق رائے دہی کے قانون میں ترمیم کی منظوری کے لیے زور دیں۔ 
حق رائے دہی کے قانون کے حمایتیوں کا خیال ہے کہ جہوری نظام کو لاحق خطرات سے نمٹنے کا واحد مؤثر طریقہ اس قانون کا نفاذ ہے۔
تاہم صدر بائیڈن کے نقطہ نظر سے معلوم ہوتا ہے کہ  انتخابات اور حکومت پر اعتماد کو فروغ دینے کے بجائے کورونا وائرس اور معاشی مسائل کا حل ان کی ترجیح ہے۔
وائٹ ہاؤس کے مطابق صدر جو بائیڈن کا چھ جنوری کو عوام سے خطاب کا ارادہ ہے جس میں وہ جمہوریت کی پائیداری پر بات کریں گے۔

حملے کے 700 ملزمان پر فرد جرم عائد ہو چکا ہے۔ فوٹو گیٹی امیج

امریکی تھنک ٹینک ’کونسل برائے فارن ریلیشنز‘ سے خطاب میں صدر بائیڈن کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سولیون نے بھی کہا تھا کہ کانگریس پر حملے سے بہت سارے ممالک کے امریکہ سے متعلق خیالات تبدیل ہوئے ہیں۔ 
انہوں نے کہا کہ اتحادی ممالک کو امریکی جمہوریت سے متعلق تشویش ہے جبکہ حریف ان حالات کا فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔
جو بائیڈن کے خیال میں ڈونلڈ ٹرمپ کے حامی مکمل طور پر سابق صدر کے نظریات سے اتفاق نہیں کرتے بلکہ ٹرمپ نے ووٹرز کے سیاسی، معاشی اور سماجی نظام سے عدم اطمینان کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کی حمایت حاصل کی ہے۔
صدر بائیڈن نے اپنے انہی خیالات کی بنیاد پر حکومت کے پہلے سال کا ایجنڈا تشکیل دیا ہے جس کے تحت وہ ان مسائل کو شکست دینا چاہتے ہیں جو ان کے خیال میں حملے کی وجہ بنے۔
اس سلسلے میں صدر بائیڈن نے قانون نافذ کرنے والے وفاقی ادارے کو قومی اداروں کی سکیورٹی بڑھانے اور مواصلاتی نظام اور طریقہ کار میں بہتری لانے کی ہدایات کی ہیں۔

کپییٹل ہل پر حملے سے امریکی حکومت کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے۔ فوٹو روئٹرز

خیال رہے کہ کانگریس پر حملے کے معاملے میں امریکی محکمہ انصاف نے 700 ملزمان پر فرد جرم عائد کیا ہے جو ملکی تاریخ کی سب سے بڑی قانونی کارروائی ہے۔ تاہم ڈیموکریٹ جماعت کے اراکین کا کہنا ہے کہ حق رائے دہی کا قانون صدر بائیڈن کی ترجیح ہونی چاہیے۔
ماہرین کے خیال میں ٹرمپ کے حامیوں کی بغاوت دراصل انتخابات کو نقصان پہنچانے اور جمہوریت کا تختہ الٹے کے لیے چلنے والی ایک بڑی تحریک تھی۔ 
انتخابات سے متعلق ’پبلک وائز‘ نامی امریکی ادارے کی ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ اگر ووٹرز نے انتخابات پر اعتماد نہ کیا تو شاید آئندہ وہ ووٹ نہ ڈالیں، اس لیے صدر بائیڈن کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس موضوع پر کھل کر بات کریں۔
حق رائے دہی کے قانون میں ترمیم کی منظوری سے محکمہ انصاف کو حق حاصل ہوگا کہ وہ ان ریاستوں کے الیکشن قوانین میں تبدیلیوں کا جائزہ لیں جن کی شہریوں کے ساتھ امتیازی سلوک کی طویل تاریخ ہے۔
امریکی برینن سنٹر کے مطابق 19 ریاستوں نے حال ہی میں ایسے قوانین کی منظوری دی ہے جن کے تحت ووٹ ڈالنا مشکل ہو گیا ہے۔

شیئر: