Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عرب کا ایسا گاؤں جہاں جدید دور کی کوئی سہولت نہیں

مکانات غار نما ہیں، لوگ چیخ کر ایک دوسرے رابطہ کرتے ہیں۔ (فوٹو: سبق)
 سعودی عرب کے کوہستانی علاقے میں ایک ایسا قریہ ریکارڈ پر آیا ہے جہاں کے باشندے دنیا بھر سے کٹے ہوئے ہیں اور جدید ترین ترقی یافتہ وسائل سے مالا مال ماحول کے باوجود قدیم ترین پسماندہ انداز کی زندگی گزار رہے ہیں۔ 
سبق ویب سائٹ کے مطابق مقامی صحافیوں کی ایک ٹیم نے جازان صوبے کی الریث کمشنری کے القھر کوہستانی علاقے کے ’الشامیہ‘ گاوں کی رپورٹنگ کرتے ہوئے بتایا کہ الشامیہ تک جانا جان جوکھم کا کام ہے۔
دھار دار چٹانوں سے بھرے راستے سے گزر کر بڑی مشکل سے قریہ پہنچے۔ دن بھر چل کر راستہ طے کیا تھا اور پوری کوشش تھی کہ کسی طرح سورج غروب ہونے سے قبل قریے تک رسائی حاصل کرلی جائے۔ 

گاوں تک پہنچنا انتہائی دشوار ہے، گدھے ذریعہ نقل و حمل ہیں۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

اخباری رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ الریث قریے کے مکانات بجلی سے محروم ہیں۔ مکانات انسانی رہائش سے کہیں زیادہ بھیڑوں کے باڑے سے زیادہ ملتے جلتے ہیں۔
مٹی کے بنے مکانات غار نما لگتے ہیں۔ یہاں ٹیلیفون کا رواج نہیں، بنیادی وسائل کا دور دور تک کوئی نام و نشان نہیں، یہاں کے باشندے ایک دوسرے سے رابطے کے لیے چیخ و پکار کا طریقہ اپناتے ہیں، 
ٹرانسپورٹ کے لیے گدھے استعمال ہوتے ہیں- یہاں کی بولی مشکل ہی سے سمجھ میں آتی ہے، نوجوان یہ بتاتے ہوئے شرماتے ہیں کہ انہوں نے تعلیم حاصل نہیں کی،
گاون کے سکول میں پرائمری تک تعلیم کا رواج ہے، مڈل یا ثانوی کی تعلیم حاصل کرنے کے خواہشمندوں کو علاقے سے نکلنا پڑتا ہے، 

گاؤں میں بجلی ہے اور نہ صاف پانی دستیاب ہے۔ (فوٹو: سبق نیوز)

یحیی الریثی نامی ایک بزرگ نے بتایا کہ وہ ذیابیطس، دمے اور سن رسیدگی جیسے لاعلاج امراض میں مبتلا ہیں۔ ان کا خاندان خط غربت سے نیچے کی زندگی گزار رہا ہے۔
ان کی آمدنی کا واحد وسیلہ باپ کی سماجی کفالت سے ملنے والی رقم ہے۔ یہ 1100 ریال سے زیادہ نہیں۔ وہ پانچ بھائی ہیں اور سب کے سب بے روزگار ہیں۔ ان میں سے ایک معذور ہے جس کی وجہ سے اسے سماجی کفالت کا وظیفہ ملتا ہے۔
یہ سب سہولتوں سے عاری پہاڑوں اور چٹانوں کے درمیان رہ رہے ہیں۔ پینے کا صاف پانی میسر نہیں، آلودہ  پانی استعمال کرتے ہیں جس سے مختلف امراض میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ 
اس طرح کے واقعات الریث قریے میں بھرے ہوئے ہیں۔ یہاں دو بہنوں سے ملاقات ہوئی دونوں بچپن ہی سے ذہنی امراض میں مبتلا ہیں۔

لوگوں کو علاج کے لیے 60 کلومیٹر کی مسافت طے کرنا پڑتی ہے۔ (فوٹو: سبق نیوز)

انہیں پتا نہیں کہ وہ کہاں رہتی ہیں اور کس دور میں زندگی گزار رہی ہیں۔ دونوں اپنی 100 سالہ ماں کے ساتھ سکونت پذیر ہیں۔ ان کے سرپرست سلمان الریثی نے بتایا کہ ذہنی امراض کا علاج آسان نہیں ہے۔ اس کے لیے انہیں 60 کلومیٹر دور بیش ہسپتال لے جانا پڑے گا جو آسان کام نہیں۔ 
الریث قریے کے باشندوں کے مصائب افسانوی لگتے ہیں۔ یہ لوگ اپنی میتوں کو اپنے گھروں کے برابر میں دفنا دیتے ہیں۔ ان کی آرزو ہے کہ مقامی حکام انہیں رہائش فراہم کردیں اور گزر بسر کا کوئی انتظام کر دیں۔ 

شیئر: