Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مری میں ہلاکتیں: کیا ریسکیو آپریشن میں تاخیر کی گئی؟

پاکستان میں سیاحوں کا برفباری میں پھنسنے کے واقعات پہلے بھی رونما ہو چکے ہیں۔ (فوٹو: اے پی پی)
مری میں شدید برفباری کے باعث پھنس جانے والے ہزاروں سیاحوں کو بچانے کے لیے ریسکیو آپریشن جاری ہے جبکہ پھنس جانے والے 22 سیاحوں کی لاشیں نکال لی گئی ہیں۔ ان میں سے 14 لاشوں کو راولپنڈی انسٹی ٹیوٹ آف یورولوجی میں منتقل کر دیا گیا یے۔
ریسکیو آپریشن میں پاکستان فوج کے دستے، نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ، ریسکیو 1122 کے اہلکار اور ضلعی انتظامیہ سنیچر کی صبح سے ریسکیو آپریشن میں شریک ہیں۔

کیا موسم اچانک خراب ہوا؟

محکمہ موسمیات نے گذشتہ ہفتے ہی خبردار کردیا تھا کہ ملک کے بالائی علاقوں میں شدید برفباری جبکہ بارشوں کا سلسلہ شروع ہوگا۔ محکمہ موسمیات نے ضلعی انتظامیہ سمیت نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ کو ضروری اقدامات لینے کے لیے الرٹ بھی جاری کیا تھا۔
مری کے رہائشی قاسم عباسی نے اردو نیوز کو بتایا کہ رواں ہفتے منگل سے ہی موسم خراب ہونا شروع ہو گیا تھا اور وقفے وقفے سے برفباری کا سلسلہ جاری تھا۔
انہوں نے کہا کہ دو روز کی شدید برفباری کے باعث ٹریفک کا دباؤ انتہائی بڑھ چکا تھا اور راستے بھی کلیئر نہیں کیے جا رہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ برفباری اور رش کے باعث معاملہ اتنا خراب ہوا کہ جمعرات کو مری مال روڈ پر بھی شدید ٹریفک جام رہی اور گاڑیاں ایک روز تک برف میں پھنسی رہی جس کے باعث دیکھتے ہی دیکھتے اکثر ہوٹلز بک ہو گئے۔ لیکن راستے کلیئر کرنے کا عمل شروع نہ ہوسکا۔

سنیچر کی صبح سے ریسکیو آپریشن جاری ہے۔ (فوٹو: اے پی پی)

کیا انتظامیہ صورتحال سے غافل تھی؟

راولپنڈی پولیس نے منگل کو ٹویٹ کرتے ہوئے سیاحوں کو خبردار کیا اور مری جاتے ہوئے احتیاطی تدابیر سے متعلق ایڈوائزری جاری کی۔
مری میں ہلاک ہونے والے اسلام آباد پولیس کے اہلکار نوید اقبال کی اپنے کزن سے گفتگو بھی منظر عام ہر آئی ہے جس میں وہ بتا رہے ہیں کہ 20 گھنٹوں سے زائد گزرنے کے باجود ریسکیو آپریشن شروع نہیں ہوا نہ ہی پولیس موقع پر آئی اور نہ کوئی مشینری نظر آرہی ہے۔
نوید اقبال کے کزن طیب گوندل نے اردو نیوز کے ساتھ گفتگو میں کہا کہ انہوں نے وزیر داخلہ، وزیر اطلاعات اور پولیس کے اعلیٰ حکام کو صورتحال سے آگاہ کیا تھا لیکن بروقت کارروائی نہیں کی گئی۔
انتظامیہ اس وقت حرکت میں آئی جب صورتحال انتہائی خراب ہو چکی تھی اور مری میں سینکڑوں گاڑیاں اور ہزاروں سیاح برف میں پھنس چکے تھے۔ مری میں منگل سے برفباری کے سلسلے کا آغاز ہوگیا تھا جبکہ جمعے کو رات نو بجے انتظامیہ نے اسلام آباد سے مری کا داخلہ بند کر دیا تھا۔
دوسری جانب گلیات ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے گلیات کے علاقے میں منگل سے روڈ کلیئرنس آپریشن جاری کیا اور وقفے وقفے سے سیاحوں کو ایبٹ آباد اور مری سے گلیات داخل ہونے سے روکتے رہے۔
جی ڈی اے کے ترجمان احسن حمید نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’گلیات میں جمعے کو ایبٹ آباد اور مری سےآنے والے سیاحوں کا داخلہ مکمل طور پر بند کر دیا گیا تھا اور تمام سیاحوں کو ہوٹلز اور محفوظ مقامات تک پہنچا دیا گیا تھا۔
ترجمان جی ڈی اے کے مطابق ’موسم کی خرابی کے باعث گلیات میں ہوٹلز ایسوسی ایشن کو پابند بنایا گیا تھا کہ کوئی بھی سیاح ہوٹل کی حدود سے باہر نہ جائے اور یہ یقینی بنایا گیا تھا کہ سڑکوں پر کوئی بھی سیاح رات بسر نہ کرے۔

شدید برفباری کے بعد فوجی اہلکار سڑکوں سے برف ہٹا رہے ہیں۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

ماضی میں اس طرح کے ریسکیو آپریشن میں کیا اقدامات کیے جاتے رہے؟

پاکستان میں سیاحوں کے برفباری میں پھنسنے کے واقعات پہلے بھی رونما ہو چکے ہیں اور ریسکیو آپریشن کے ذریعے سیاحوں کو محفوظ مقامات تک منتقل کیا جاتا رہا ہے۔
سنہ 2015 میں ضلع مانسہرہ کے سیاحتی مقام ناران میں 100 گاڑیاں برف تلے دب گئی تھیں اور ہزاروں سیاح پھنس گئے تھے۔
تقریباً 20 گھنٹے تک جاری رہنے والے ریسکیو آپریشن کے بعد تمام سیاحوں کو بحفاظت نکال لیا گیا تھا۔ اس ریسکیو آپریشن میں شریک ضلعی انتظامیہ کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’برفانی تودے گرنے کے باعث راستے بند ہوچکے تھے اور برفباری کا سلسلہ بھی وقفے وقفے سے جاری تھا۔ اس دوران فوری طور پر ایف ڈبلیو او، این ایچ اے اور اور ریسکیو کی ٹیموں نے امدادی کارروائیاں شروع کر دیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ایسی صورتحال میں سب سے بڑا خدشہ خوراک اور پٹرول کی قلت کا ہوتا ہے، اسی خدشے کے پیش نظر آئل ٹینکرز ایسوسی ایشن کو متحرک کیا گیا اور جہاں تک ممکن ہوسکے آئل ٹنکرز پہنچائے گئے اور ریسکیو اہلکاروں نے سیاحوں تک پٹرول اور خوراک پہنچانا شروع کیں۔
انہوں نے کہا کہ ’بابو سر ٹاپ کی طرف چونکہ برفباری زیادہ ہوتی ہے اور خدشہ تھا کہ گاڑیاں برف کے نیچے دب جائیں گی، سیاحوں کو گاڑیاں چھوڑ کر محفوظ مقامات تک منتقل کیا گیا، اس آپریشن کے دوران آرمی کے دو ہیلی کاپٹر کا بھی استعمال کیا گیا اور یوں ہزاروں سیاحوں کی جانیں بچا کر 20 گھنٹے کا طویل آپریشن کامیابی سے مکمل ہوا۔

شیئر: