Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہیر وارث شاہ سن کر ٹیگور وجد میں آ گئے

 ٹیگور کے دورۂ لاہور سے بہت سے لوگوں کو اپنے عہد کی ایک عظیم شخصیت کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ (فوٹو: وکی میڈیا کامنز)
1935 میں رابندر ناتھ ٹیگور، شانتی نکیتن کے لیے چندہ جمع کرنے لاہور آئے۔ ان کے اس دورے کے بارے میں کئی دلچسپ روایات پڑھنے کو ملتی ہیں، جن میں سے ایک کا تعلق، ان کے میزبان دھنی رام  بھلہ سے ہے جو انارکلی بازار میں، جوتوں کی مشہور دکان ’بھلے دی ہٹی‘ کے مالک تھے۔
ٹیگور کی میزبانی کا شرف انہیں کس طرح حاصل ہوا، اس کا پُرلطف ماجرا، معروف ترقی پسند ادیب اور نقاد، اختر حسین رائے پوری نے ’گردِ راہ‘ میں رقم کیا ہے، جس سے بھلہ کے مزاج کی خبر بھی ملتی ہے اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس نے چندے میں 10 ہزار کی تھیلی پیش کرتے وقت یہ شرط عائد کی تھی کہ ٹیگور کا قیام اس کے یہاں ہوگا۔ بھلے کی خواہش پوری ہوئی تووہ خوشی سے پھولے نہ سمایا۔
اختر حسین رائے پوری لکھتے ہیں:
’اُس لق و دَق عمارت میں وہ سب کچھ تھا جو کسی سیٹھ کی کوٹھی میں ہوتا ہے۔  بھلہ نے وسیع دیوان خانے کو ایک پردے سے تقسیم کیا اور عقبی حصّے میں ٹیگور کے مطالعے کا کمرہ آراستہ کیا۔ جب کوئی درشن کے لیے آتا تو بھلہ بہ نفسِ نفیس پردہ ہٹا کر ببانگِ دہل اعلان کرتا۔ ’وہ بیٹھے ہیں گرودیو۔‘
میں نے اب نازک مزاج شاعر کے رُخ پر تجلّی کے بجائے ناراضگی کے آثار دیکھے اور ہمارے سلام کا جواب اُنھوں  نے بڑی بے رُخی سے دیا۔ ستم بالائے ستم کہ بھلہ نے جب سنا کہ ٹیگور کو صبح سویرے بھجن سننے کی عادت ہے تو اس نے گردوارے سے سِکھ خوش الحانوں کو بُلا بھیجا اور انہوں نے شاعر کے گوشِ ہوش درست کر کے رکھ دیے۔‘

ٹیگور کی میزبانی کا پُرلطف ماجرا، معروف ترقی پسند ادیب اور نقاد اختر حسین رائے پوری نے ’گردِ راہ‘ میں رقم کیا ہے۔ (فوٹو: ریختہ)

لاہور سے ٹیگور کی رخصتی کے سمے بھلہ نے چائے کی دعوت کا اہتمام کیا جس میں اختر حسین رائے پوری نے اپنے بھائی مظفر حسین شمیم اور چراغ حسن حسرت کے ساتھ  شرکت کی۔ وہاں کسی نے بھلہ کے کان میں یہ بات ڈالی کہ تمھیں میزبان کی حیثیت سے کچھ بات کرنی چاہیے اور زیادہ بہتر تو یہ ہے کہ وہ منظوم صورت میں ہو۔ بھلے مانس بھلہ کو کسی نے موقع کی مناسبت سے نظم بھی لکھ کر دی جو اختر حسین رائے پوری نے ’گردِ راہ‘ میں نقل کی ہے:
 اے مسافر، کیا تو چلا جائے گا!
پرندے ہَوا میں پَرتول رہے ہیں
گائیں چراگاہوں کی طرف جا رہی ہیں اور
ریل گاڑی دُھواں اُڑا رہی ہے
اے مسافر، کیا تو چلا جائے گا!
بنگال کا جادو مشہور ہے
لیکن اہلِ پنجاب کو اس جادو کا منتر خوب یاد ہے
اے مسافر، کیا تو چلا جائے گا، وغیرہ وغیرہ
ہم سب نے قہقہوں اور تالیوں سے اس نظم کی داد دی اور تھکا ہارا مسافر جہاں سے آیا تھا وہیں واپس لوٹ گیا۔‘
ممتاز صحافی اور نثرنگارعبدالمجید سالک کی ’سرگزشت‘ میں ٹیگور اور لاہور کا ذکر دو حوالوں سے آیا ہے: ان کی 1935 میں لاہور آمد اور ٹیگور کے ڈرامے ’چترا‘ کے تعلق سے ،جس کا ترجمہ سالک نے کیا تھا۔
 ٹیگور نے لاجپت رائے ہال میں تقریر بھی کی اور دھنی رام  بھلہ کی نواں کوٹ میں رہائش گاہ پر اخبار نویسوں سے تبادلہ خیال بھی کیا۔ عبدالمجید سالک نے صحافیوں میں اپنے علاوہ، غلام رسول مہر اور چراغ حسن حسرت کا نام لکھا ہے جو بھلہ اور ان کے داماد رنبیر جی (اخبار ملاپ) کی دعوت پر ٹیگور سے ملنے گئے۔ ملاقات کے بعد ٹیگور کے ساتھ صحافیوں کا فوٹو بھی بنا۔ سالک نے ٹیگور کی شخصیت کے بارے میں اپنے تأثرات یوں قلمبند کیے ہیں:
 ’ڈاکٹر ٹیگور  کی ملاقات سے مجھ پر یہ اثر ہوا کہ شاعر بے نظیر ہے۔ لیکن خیالات بالکل سطحی ہیں اور زیادہ تر سر اور ڈاڑھی کے برف سے سفید بالوں، وجیہہ چہرے، کشیدہ قد اور جبہ وکلاہ کی وجہ سے شخصیت میں ایک خاص قسم کی جاذبیت پیدا ہوگئی ہے۔ بہرحال وہ اپنی شاعری کی وجہ سے بین الاقوامی شہرت کے مالک تھے اور ہندوستان کے لیے ان کی ہستی مایہ ناز تھی۔‘
چترا کے ترجمے کا قصہ یوں ہے کہ سالک اور امتیاز علی تاج دونوں کو ٹیگور بہت پسند تھے۔ سالک کے بقول ’میں اور وہ دن رات ٹیگور کو پڑھ کر جھوما کرتے تھے۔‘

عبدالمجید سالک کی ’سرگزشت‘ میں ٹیگور اور لاہور کا ذکر آیا ہے

.مسٹر آصف علی نے چترا کا جو ترجمہ کیا تھا وہ سالک کو پسند نہ آیا تو انھوں نے خود اسے اردو قالب میں ڈھالنے کی ٹھانی۔ خواجہ حسن نظامی کو ان کی یہ کاوش اس قدر بھائی کہ پھر یہ ان کے تعارف کے ساتھ شائع ہوا۔
اس ترجمے کا منتخب حصہ گاندھی جی کو سنایا گیا تو انھیں بھی اچھا لگا۔  سالک نے انھیں ترجمے کی بعض خوبیوں کے بارے میں بھی بتایا۔ ’سرگزشت‘ میں لکھتے ہیں: ’مثلاً یہ بتایا کہ creator کا ترجمہ میں نے ’کرتار‘ کیا ہے اور rites کا ترجمہ ’ریتیں‘۔۔۔ توگاندھی جی اچھل پڑے اور کہا کہ آپ تو بالکل ان لفظوں کی جڑ تک پہنچ گئے۔ پھر میں نے بتایا کہ ٹیگور بعض مقامات پر نثر میں قافیہ پیدا کرتا ہے، میرا بس جہاں چلتا ہے میں ترجمہ میں وہ چیز پیدا کردیتا ہوں۔ مثلاً Touch and sweatness کا ترجمہ ’مَس اور رَس‘، بہت خوش ہوئے۔ کہنے لگے جب کتاب چھپے تو اس کا ایک نسخہ مجھے ضرور بھیجیے۔‘
حسبِ ارشاد کتاب گاندھی جی کو بھجوائی گی تو انھوں نے مترجم کو پوسٹ کارڈ کے ذریعے کتاب کی رسید دی اور اس کا شکریہ ادا کیا۔
ٹیگور، گاندھی اور لاہور کے حوالے سے ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ مزنگ میں تانگوں کے اڈے کے پاس پنڈت رام بھجدت وکیل کی کوٹھی تھی۔ یہ صاحب کانگرسی تھے۔ گاندھی جی 1919میں لاہور آئے تو انھی کے یہاں ٹھہرے۔ رام بھجدت کی شادی ٹیگور کی بھانجی سرلا دیوی سے ہوئی تھی۔
 ’چترا‘ کا ترجمہ سرلا دیوی کی وساطت سے ٹیگور تک پہنچا۔ عبدالمجید سالک نے لکھا ہے کہ ایک دن سرلا دیوی کا بیٹا دیپک ان کے ہاں آیا اور کہا کہ اس کی والدہ نے انھیں یاد کیا ہے۔ سالک ان کے گھر گئے تو معلوم ہوا کہ ٹیگور کا خط موصول ہوا ہے جس میں ترجمے کے بارے میں ان کی رائے درج ہے۔
بنگلہ میں لکھا یہ خط سرلا نے پڑھ کر سنایا جس میں ٹیگور نے بتایا تھا کہ انھوں نے شانتی نکیتن میں فارسی کے ایک استاد سے یہ ترجمہ سنا، بعض الفاظ سمجھ میں نہیں آئے لیکن سادہ ہندوستانی فقرے سمجھ گئے۔ ترجمے کو انھوں نے میٹھا ترجمہ قرار دیا۔ ٹیگور نے یہ بھی لکھا کہ آگرہ میں کسی صاحب نے گیتانجلی کا ترجمہ شائع کیا تھا جو ان کے پلے نہ پڑا تھا۔ سالک کے بقول، ٹیگور کا اشارہ نیاز فتح پوری کے ترجمے کی طرف تھا۔ ٹیگور نے خط میں کتاب بغیر اجازت شائع کرنے پر ناراضی ظاہر کی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ برصغیر میں مصنف کی اجازت کے بغیر کتاب شائع کرنے کی ریت خاصی پرانی ہے۔
اسی طرح لاہور سے ٹیگور کی تخلیقات کے تراجم کا جو سلسلہ ان کی زندگی میں شروع ہوا اس کا دائرہ زمانۂ حال تک پھیلا ہوا ہے۔

لاہور سے ٹیگور کی تخلیقات کے تراجم کا جو سلسلہ ان کی زندگی میں شروع ہوا اس کا دائرہ زمانۂ حال تک پھیلا ہوا ہے۔ (فوٹو: رنبیر ڈاٹ نیٹ)

 ٹیگور کے دورۂ لاہور سے بات شروع کی تھی تو اب دوبارہ اسی کی طرف مڑتے ہیں۔ انھوں نے اس دورے میں پنجاب سٹوڈنٹس کانفرنس میں خطبہ دیا۔ بریڈلا ہال میں اپنا کلام سنایا۔ بڑی تعداد میں لوگ ان کا دیدار کرنے آئے۔ ان کے عشاق میں ممتاز افسانہ نگار راجندر سنگھ بیدی بھی شامل تھے۔ رش کے باعث بھگدڑ مچنے پر وہ لوگوں کے پاؤں تلے کچلے گئے تو رنجیدہ خاطر ہو کرخود سے یہ سوال کیا:
 ’کیا بڑے آدمی کو دیکھنے کے لیے چھوٹا ہونا ضروری ہے؟‘
بریڈلا ہال کے قریب ڈی اے وی کالج میں ٹیگور کے اعزاز میں تقریب ہوئی، جس کا احوال معروف مزاح نگار کنھیا لال کپور نے کچھ یوں بیان کیا ہے:
’ہمارے پرنسپل صاحب نے انھیں کالج میں مدعو کیا۔ ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا۔ سٹیج سیکرٹری ہمیں بنایا گیا۔ گورو دیو ٹیگور لاہور میں آنے سے پہلے ایک خطرناک بیماری میں مبتلا رہے تھے۔ وہ کافی کمزور دکھائی دیتے تھے۔ چہرے کا رنگ زرد پڑ گیا تھا۔ آواز بھی کافی بے جان ہوگئی تھی۔ البتہ آنکھوں میں چمک برقرار تھی۔ وہ ایک لمبا چغہ پہنے ہوئے تھے۔ سر پر قلندروں کی طرح ایک لال ٹوپی تھی۔ ہمارے طلبا نے انھیں بنگالی گیت سنائے۔ انھیں سن کر انھوں نے مجھے ہاتھ کے اشارے سے اپنے پاس بلایا اور انگریزی میں کہا:
’یہ پنجابی طلبا بھلا کیا بنگالی گیت گائیں گے۔ اور پھر میں اتنی دور سے بنگالی گانا سننے بھی نہیں آیا۔ ان سے کہیے مجھے پنجابی گیت سنائیں۔‘
ہم نے ایک طالب علم سے ’ہیر وارث شاہ‘ سنانے کے لیے کہا۔ اسے سن کر وہ وجد میں آگئے۔ جب گانا ختم ہوا۔ انھوں نے فرمایا:
’میں یہ تو نہیں جانتا اس گانے کا مفہوم کیا تھا لیکن مجھے ایسا لگا جیسے کسی عظیم و بسیط صحرا میں کوئی زخمی فرشتہ سسکیاں بھر رہا ہے۔‘
یاد رہے کہ ٹیگور کو اپنے معزز معاصر علامہ اقبال سے  یہ شکوہ تھا کہ انھوں نے اپنی مادری زبان کو شعری اظہار کا ذریعہ  کیوں نہیں بنایا۔
اس زمانے میں ہندی کے نامور لکھاری بھیشم ساہنی گورنمنٹ کالج لاہور کے طالب علم تھے۔ انھوں نے اپنی کتاب Today's Pasts: A Memoir میں لاہور سے وابستہ یادیں بھی تازہ کی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اسی شہر میں انھوں نے ٹیگور کو پہلی دفعہ دیکھا اور بریڈلا ہال میں کلام شاعر بزبان شاعر سنا، جس کے بعد چئیرنگ کراس کے پاس پلازہ ہال میں، ان کا  ڈراما چترانگدا بھی دیکھنے گئے جہاں ٹیگور سٹیج کے ساتھ اپنا روایتی خوبصورت لباس زیب تن کیے بیٹھے تھے اور ڈرامے کے دوران بیچ بیچ میں اپنی نظموں کی لائنیں پڑھتے۔

ہندی کے نامور لکھاری بھیشم ساہنی  نے اپنی کتاب Today's Pasts: A Memoir میں لاہور سے وابستہ یادیں بھی تازہ کی ہیں۔ (فوٹو: انڈین ایکسپریس)

کنھیا لال کپور کے اوپر نقل کردہ بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ ٹیگور جب لاہور آئے تو ان کی صحت دگرگوں تھی۔ اس وقت ان کی عمر 74 برس تھی۔  بیماری اور پیرانہ سالی میں بھی شانتی نیکیتن کے لیے چندہ جمع کرنے لاہور آنے اوریہاں بڑا مصروف وقت گزارنے سے  ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے کاز سے کس قدر مخلص تھے۔
 ٹیگور کے اس دورے سے بہت سے لوگوں کو اپنے عہد کی ایک عظیم شخصیت کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا اور ان کا یہ دورہ لاہور کی تاریخ میں یادگار حیثیت اختیار کر گیا۔

شیئر: