Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دل سے دلی: اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟

ہندوؤں میں اونچی ذاتیں اب روایتاً بھارتیہ جنتا پارٹی کا ساتھ دیتی ہیں (فوٹو: روئٹرز)
انڈیا میں اس وقت ہر چھوٹا بڑا تجزیہ نگار بس یہ بتانے میں لگا ہوا ہے کہ اتر پردیش کے اسمبلی انتخابات میں اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا لیکن اونٹ کے بیٹھنے میں ابھی وقت ہے۔
ابھی انتخابی سفر شروع ہی ہوا ہے اور اتر پردیش جیسی ریاست میں کوئی بھی پیشن گوئی کرنا چاہے وہ جذبات کی بنیاد پر کی جا رہی ہو یا گذشتہ انتخابات کے اعداد و شمار کی بنیاد پر، کبھی خطرے سے خالی نہیں ہوتا۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔
سب سے پہلے تو یہ کہ اگر اترپردیش ایک آزاد ملک ہوتا تو آبادی کے لحاظ سے دنیا کے سب سے بڑے ممالک کی فہرست میں پانچویں نمبر پر ہوتا۔ صرف چین، انڈیا، امریکہ اور انڈونیشیا اس سے آگے ہیں۔
اس کی تقریباً 24 کروڑ آبادی کا پانچواں حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ باقی 80 فیصد ہندو ضرور ہیں لیکن ان کے اندر بھی بہت سارے ذیلی گروپ ہیں لیکن بنیادی طور پر انہیں دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ اونچی ذات والے ہندو اور باقی جنہیں آپ پسماندہ یا نام نہاد نچلی ذاتوں سے منسوب کرسکتے ہیں۔
اتر پردیش میں ہر پانچواں شخص مسلمان ضرور ہے لیکن ظاہر ہے کہ ان کی آبادی بھی پوری ریاست میں پھیلی ہوئی ہے، کہیں کم، جہاں ان کے ووٹ کی اہمیت کم ہو جاتی ہے اور کہیں زیادہ جہاں وہ ہار اور جیت کا فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔
ریاست کی 403 سیٹوں میں سے تقریبا 140 ایسی ہیں جہاں مسلمانوں کے ووٹ فیصلہ کن ثابت ہوسکتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا کسی بھی دوسرے ووٹنگ بلاک کی طرح مسلمان کسی ایک پارٹی کے حق میں ووٹ دیتے ہیں؟ مختصر جواب ہےنہیں۔

اترپردیش میں 20 فیصد کے قریب دلت ہیں جنہیں شیڈولڈ کاسٹ کہا جاتا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

ہندوؤں میں اونچی ذاتیں اب روایتاً بھارتیہ جنتا پارٹی کا ساتھ دیتی ہیں۔ یہ اس کا بنیادی ووٹ بینک ہیں اور ان کی تعداد تقریباً 19 فیصد مانی جاتی ہے۔
باقی تقریباً 60 فیصد میں سے 40 فیصد سے کچھ زیادہ کا تعلق پسماندہ ذاتوں اور طبقات سے ہے جنہیں ’او بی سی‘ کہا جاتا ہے اور 20 فیصد کے قریب دلت ہیں جنہیں شیڈولڈ کاسٹ کہا جاتا ہے۔ یہ ہندو معاشرے کی درجہ بندی میں سب سے نچلی پائے دان پر مانے جاتے ہیں۔
تو ان سب کی محبتوں اور وفاداریوں کے دعویدار کون ہیں؟ مسلمان پہلے کانگریس کو ووٹ دیتے تھے، بابری مسجد کی مسماری کے بعد کانگریس سے تو طلاق ہوگئی لیکن کسی دوسری جماعت سے کوئی پختہ رشتہ نہیں بن پایا۔
اب ہر الیکشن میں وہ بس یہ دیکھتے ہیں کہ بی جے پی کو کون ہرا سکتا ہے، کبھی سماج وادی پارٹی کا ساتھ دیتے ہیں تو کبھی بہوجن سماج پارٹی کا۔
سماج وادی پارٹی مسلمانوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہتی ہے اور واحد جماعت ہے جو یہ کہنے سے ہچکچاتی نہیں ہے۔ مسلمانوں کےعلاوہ اس کی سپورٹ بیس میں یادو ہیں جو او بی سی کا حصہ ہیں۔ لیکن بی جے پی کو ہرانے کےلیے اس باقی پسماندہ طبقات کی حمایت بھی درکار ہوگی۔
بہوجن سماج پارٹی بنیادی طور پر دلتوں کی پارٹی ہے۔ اس کی لیڈر مایاوتی ہیں جو اونچی ذات کے ہندوؤں کو کبھی نشانہ بناتی ہیں تو کبھی ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کرتی ہیں۔
دو ہزار سات میں ان کی اونچی ذاتوں کو ساتھ لے کر چلنے کی پالیسی کامیاب ہوگئی تھی اور وہ پانچ سال کے لیے وزیراعلی بن گئیں لیکن اگلے الیکشن میں سماجوادی پارٹی کے نوجوان لیڈر اکھیلیش یادو نے انہیں اور بی جے پی دونوں کو گھر بٹھا دیا۔

سماجوادی پارٹی مسلمانوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہتی ہے اور واحد جماعت ہے جو یہ کہنے سے ہچکچاتی نہیں ہے (فوٹو: اے بی پی)

اس کے علاوہ کانگریس بھی میدان میں ہے۔ ریاست میں اس کی رہنمائی پرینکا گاندھی کر رہی ہیں اور انہوں نے 40 فیصد ٹکٹ عورتوں کو دینے کا اعلان کیا ہے۔
پارٹی کا روایتی ووٹ بینک اس کا ساتھ چھوڑ چکا ہے لیکن پارٹی کا نیا نعرہ ” لڑکی ہوں لڑ سکتی ہوں” کافی گونج رہا ہے۔
اور ظاہر ہے کہ ریاست میں ووٹروں کی آدھی تعداد عورتوں پر مشتمل ہے اور اگر وہ کانگریس کے ساتھ لگ جائیں تو دلچسپ نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ لیکن کیا عورتیں واقعی مکمل آزادی کے ساتھ ووٹ دینے کی پوزیشن میں ہیں؟ شاید ابھی وہ وقت نہیں آیا ہے۔
تو کہنے کا مطلب صرف یہ ہے کہ کون کس کی حمایت کرے گا اور کس حد تک، کوئی نہیں جانتا۔ اتر پردیش کی سیاست کو سمجھنا آسان نہیں ہے۔ نہ مسلمان کسی ایک پارٹی کی حمایت کرتے ہیں اور نہ ہندو۔ اور بہت کم لوگ ایسے ہیں جو ذات برادری اور مذہب کی زنجیروں کو توڑ کر ووٹ ڈالتے ہوں۔
جیسا کہ ہم نے پہلے کہا کچھ کا مقصد صرف بی جے پی کو ہرانا ہے اور اس کے لیے انہیں اپنے مقامی حلقے میں چاہے کسی بھی پارٹی کےامیدوار کو ووٹ دینا پڑے انہیں کوئی اعتراض نہیں۔ کچھ مسلمانوں کی نفرت میں ووٹ ڈالتے ہیں، انہیں تاریخ کے مظالم کا انتقام لینا ہے۔
کچھ دلتوں کو انصاف دلانا چاہتے ہیں لیکن ان کی حالت زار کے لیے ذمہ دار اونچی ذاتوں سے ہاتھ ملانے میں انہیں کوئی تکلف نہیں اور کچھ او بی سی کی حالت بہتر بنانا چاہتے ہیں اور اچانک انہیں لگنے لگا ہے کہ بی جے پی ان کے مفادات کا تحفظ کرنے کےمعاملے میں سنجیدہ نہیں ہے۔

کانگریس بھی میدان میں ہے جس کی رہنمائی پرینکا گاندھی کر رہی ہیں اور انہوں نے 40 فیصد ٹکٹ عورتوں کو دینے کا اعلان کیا ہے (فوٹو: روئٹرز)

اس لیے تین سینیئر وزرا بی جے پی چھوڑ کر سماجواودی پاٹی میں شامل ہوگئے ہیں۔ اگر بڑی تعداد میں او بی سی ووٹ بھی بی جے پی سے ہٹ جاتے ہیں، تو حیرت انگیز نتائج سامنے آسکتے ہیں۔
اترپردیش کے وزیراعلیٰ آدتیہ ناتھ اسی وجہ سے اس الیکشن کو ’اسی بنام بیس‘ کی شکل دینا چاہتے ہیں۔ ہندو ایک طرف اور مسلمان ایک طرف۔ لیکن نہ سارے ہندو ایک ووٹ بینک کے طور پر دیکھے جاسکتے ہیں اور نہ مسلمان۔
اور جب ہر سیٹ پر چار طاقتور امیدوار میدان میں ہوں تو ہار جیت کا فرق بہت کم رہ جاتا ہے۔ بات کب بنتے بنتے بگڑ جائے کچھ پتا نہیں چلتا۔
فی الحال بی جے پی تھوڑا آگے ہے، وفاق اور ریاست دونوں جگہ اس کی حکومت ہے اور اس کا کیا فائدہ ہوتا ہے یہ تو آپ کو معلوم ہی ہے۔ لیکن گزشتہ چند دنوں میں ہوا کا رخ کچھ بدلا ہے۔
اب یہ الیکشن بی جے پی اور سماج وادی پارٹی کے درمیان نظر آنے لگا ہے۔ لیکن دونوں کی ہار جیت کا فیصلہ جتنا ان کے اپنے ہاتھوں میں ہے اتنا ہی کانگریس اور بہوجن سماج پارٹی کے ہاتھوں میں بھی۔
اس لیے دوستو!  ہم تو صرف یہ کہہ سکتے ہیں کہ دل تھام کے بیٹھیے، اتر پردیش کے الیکشن میں صرف ایک اونٹ کے کسی بھی کروٹ بیٹھنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ یہاں چار پانچ اونٹ ہیں اور وہ ایک دوسرے کی کروٹوں کو آسانی سے بیلنس کر سکتے ہیں۔

شیئر: