Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دل سے دلی: حساب لگا لیں فائدہ زندہ رہنے میں ہے یا مرنے میں

انڈیا کی تقریباً نصف بالغ آبادی کو کورونا ویکیسن لگائی جا چکی ہے۔ فوٹو اے ایف پی
زندگی کے دو سال کہاں ہوا ہوگئے خبر بھی نہیں ہوئی۔ تھک ہارنے اور کئی مرتبہ امید چھوڑنے کے بعد اب جب یہ لگنے لگا تھا کہ زندگی آخر کار معمول پر لوٹ رہی ہے، بازاروں کی رونقیں بحال ہوگئی ہیں اور بچے بھلے ہی نہ آ رہے ہوں لیکن سکول بھی کھل گئے ہیں، تو اب بتایا جارہا ہے کہ آپ نے قبل از وقت جشن منانا شروع کر دیا تھا۔
وائرس کہیں گیا نہیں ہے، آپ کے ارد گرد ہی ہے، نظر پہلے بھی نہیں آتا تھا اور اب بھی نہیں لیکن اس کے باوجود اس نے اپنی شکل اور حلیہ دونوں بدل لیے ہیں۔
اب یہ وائرس زیادہ شاطر بھی ہے اور اس کے کردار کا بھی کوئی اعتبار نہیں۔ اگرچہ گذشتہ دو برسوں میں کافی پیش رفت ہوئی ہے، کئی ٹیکے بھی تیار کیے گئے اور دوائیاں بھی لیکن اس کے باوجود ابھی کسی کو یہ معلوم نہیں کہ اومی کرون کے خلاف یہ ٹیکے کتنے موثر ثابت ہوں گے۔
ہاں، اتنا اب ہمیں معلوم ہے کہ یہ ڈیلٹا کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے پھیلتا ہے۔ لیکن یہ نہیں، یا کم سے کم ابھی وثوق کے ساتھ نہیں، کہ یہ ڈیلٹا سے زیادہ خطرناک ہے یا کم، اور جسم کے کن اعضا کو زیادہ نقصان پہنچاتا ہے۔
تو سوال یہ ہے کہ اب آگے کیا ہوگا؟ اور ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ دنیا کے کئی بڑے ممالک نے اپنی سرحدیں سیل کر دی ہیں، پروازوں پر پابندیاں بڑھا دی گئی ہیں اور مسافروں کی زندگی کو جہاں کہیں بھی اور مشکل بنانا ممکن تھا، وہاں بنا دیا گیا ہے۔
مثال کے طور پر اگر آپ انڈیا سے برطانیہ کا سفر کر رہے ہیں اور آپ کو واپس بھی آنا ہو تو آپ کو روانہ ہونے سے پہلے کورونا وائرس کا آر ٹی پی سی آر ٹیسٹ کرانا ہوگا ورنہ جہاز میں نہیں بیٹھنے دیا جائِے گا۔ پھر آپ کو برطانیہ پہنچنے کے دو دن کے اندر ایک اور ٹیسٹ کرانا ہوگا اور جب تک اس کا نیگیٹو رزلٹ نہ آجائے خود کو گھر یا ہوٹل کے اندر محدود کرنا ہوگا۔
واپسی کا مرحلہ اس سے بھی زیادہ مشکل ہے۔ پہلے برطانیہ میں ٹیسٹ کرائیے اور پھر دلی آکر ہوائی اڈے پر۔ اور اس وقت تک ہوائی اڈے پر ہی بیٹھے رہیے جب تک رپورٹ نہ آجائے۔ رپورٹ پازیٹیو آئی تو سیدھے ہسپتال منتقل کر دیا جائے گا۔ آگے آپ کا نصیب۔

اومی کرون کی قسم سامنے آنے کے بعد پھر تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

مارل آف دی سٹوری یہ ہے کہ یہ اندھے کی لاٹھی ہے، چلا سب رہے ہیں حالانکہ یہ ابھی کسی کو نہیں معلوم کہ اس کی ضرورت ہے بھی یا نہیں۔ اور اگر ہے تو کتنی۔
یہ وائرس سب سے پہلے جنوبی افریقہ میں سامنے آیا تھا اور زیادہ تر رپورٹس یہ ہی بتا رہی ہیں کہ ’اومی کرون‘ بہت زیادہ خطرناک نہیں ہے۔ اس کے علاوہ دنیا کے زیادہ تر ممالک نے اپنا حفظان صحت کا نظام بہتر بنایا ہے اور وہ کسی سنگین صورتحال سے نمٹنے کے لیے بہتر طور پر تیار ہیں۔
اگر آپ کو اپریل مئی کی وہ تباہی یاد ہے جو انڈیا میں دیکھنے کو ملی تھی، جب لوگ آکسیجن کی تلاش میں در در ٹھوکریں کھاتے پھر رہے تھے اور مریض آکسیجن کے انتظار میں ہسپتالوں کے دروازوں پر ہی نہیں آئی سی یو وارڈز کے اندر دم توڑ توڑ رہے تھے، تو ظاہر ہےکہ آپ کو لگے گا کہ احتیاط میں کوئی کثر نہیں چھوڑی جانی چاہیے۔
احتیاط تو ضروری ہے لیکن ’نی جرک ری ایکشن‘ یا اچانک بہت سخت کارروائی کرنے سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے کیونکہ اب وہ حالات نہیں ہیں جو گذشتہ برس مارچ میں تھے۔
اب انڈیا کی تقریباً نصف بالغ آبادی کو ٹیکوں کی دونوں ڈوز دی جا چکی ہیں اور بہت بڑی تعداد میں لوگ پہلے ہی کورونا وائرس کی زد میں آچکے ہیں، اور ماہرین کا کہنا ہے کہ جن لوگوں کو کورونا ہو چکا ہے اور ساتھ میں ٹیکے بھی لگ چکے ہیں، ان کے لیے اس بات کا امکان کافی کم ہو جاتا ہے کہ وہ زیادہ بیمار ہوں گے۔

کورونا کے ڈیلٹا ویریئنٹ نے انڈیا میں بہت زیادہ تباہی مچائی تھی۔ فوٹو اے ایف پی

سچ یہ ہے کہ وائرس کہیں نہیں جاتے، کبھی ختم نہیں ہوتے یا کم سے کم آسانی سے ختم نہیں ہوتے۔ اس لیے ہمیں اب یہ سیکھنا ہوگا کہ وائرس کے ساتھ کیسے زندہ رہا جائے۔
اس کا فارمولہ ہمارے پاس موجود ہے۔ اول فرست میں ٹیکا لگوائیے۔ بات ذرا سخت لگتی ہے لیکن جن لوگوں نے ٹیکا نہ لگوایا ہو اور کورونا وائرس کی زد میں آجائیں، ان کے علاج پر حکومت کو کوئی پیسہ خرچ نہیں کرنا چاہیے۔ وہ اپنی صحت کا خود خیال کریں، ان کے علاج پر ہم جیسے ٹیکس دہندگان کا پیسہ ضائع نہ کیا جائے۔
ٹیکے کے بعد سب سے اہم ہے ماسک کا استعمال۔ جی ہاں، کپڑے کا وہی ٹکڑا جو عرصے سے آپ کی زندگی کا حصہ تھا لیکن جسے خطرہ کم ہو جانے کے بعد آپ نے اتار کر پھینک دیا تھا۔ اسے ڈھونڈیں اور دوبارہ استعمال کرنا شروع کر دیں۔
جب تک بالکل ضروری نہ ہو، گھر میں ہی رہیں۔ اگر باہر جانا ہی پڑے تو بھیڑ بھاڑ سے دور رہیں، اور ہاتھ دھوتے رہیں۔ گھروں اور دفاتر کی کھڑکیاں کھلی رکھیں اور جو کام کھلے آسمان کے نیچے ہوسکتے ہوں انہیں بند ایئر کنڈیشنڈ کمروں میں نہ کریں۔
حکومتوں کے لیے مشورہ ہے کہ ایسے اقدامات نہ کریں جن کا کوئی جواز نہ ہو۔ (جیسے ایئرپورٹ پر پانچ چھ گھنٹے ٹیسٹ کے نتیجے کا انتظار کرانا)۔
اور آپ کے لیے مشورہ ہے کہ ایسی نوبت نہ آنے دیں کہ پھر وہی سائیکل شروع ہوجائے جس سے بڑی کوششوں کے بعد باہر نکلے ہیں۔

انڈیا میں متعدد ہلاکتیں آکسیجن سلینڈر کی قلت کے باعث ہوئی تھیں۔ فوٹو اے ایف پی

زندگی بھی آپ کی ہے اور ذمہ داری بھی۔ اپنے ضروری کام بھی کیجیے اور ساتھ میں احتیاط بھی۔ آپ کو یاد دلا دیں کہ کورونا وائرس سے مرنے والوں کے لواحقین کو حکومت پچاس ہزار روپے کا معاوضہ دے رہی ہے۔ دلی میں کورونا کے دوسرے دور کی تباہی کے دوران اتنے پیسے ایمبولینس سے ہسپتال جانے یا آکسیجن کا ایک سلینڈر حاصل کرنے میں خرچ ہو رہے تھے۔
باقی حساب آپ خود لگا لیجیے کہ فائدہ زندہ رہنے میں ہے یا مرنے میں۔

شیئر: